تنظیمی چپقلش و تعصبات، اختلافات اور مخالفت وغیرہ سے میں ہمیشہ دور رہا اور بلا تخصیص و تفریق اچھے علماء اور سنجیدہ فکر مذہبی زعماء کو گاہے بگاہے شدید اختلاف کے باوجود بھی سنتا رہا اور ابھی بھی سنتا ہوں۔
مختلف احباب نے مجھے بارہا اپنی اپنی جماعتوں میں شمولیت کی دعوت دی تو میرا ایک بنیادی سوال ہوتا تھا جس کا جواب مجھے ہمیشہ خاموشی کی صورت میں ملا اور مجھے علم ہو گیا کہ میں ناقابل قبول ہوں۔
سوال میرا یہ ہوتا تھا کہ کیا حریت فکر و رائے کی اجازت ہو گی ؟ یعنی جماعت کے امیر اور پالیسی سے اختلاف رائے رکھ سکوں گا یا نہیں؟
شخصی غلامی مجھ سے نہ پہلے کبھی کی گئی اور نہ ابھی ہوتی ہے اور نہ موت تک ممکن ہے۔
اہل توحید میں سے بعض شخصیات کے ساتھ ان کے اسلوب یا شدت موقف یا کسی بھی وجہ سے شدید اختلاف کے باوجود ان اہل علم کی جوتیاں سیدھی کرنا فخر سمجھتا ہوں۔
اور ویسے بھی چار شادیاں کرنے کے بعد بندہ کسی جماعت کو جوائن کرنے جوگا رہتا بھی نہیں۔
پہلی شادی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ
دوسری شادی جامعہ کراچی
تیسری شادی مرکز الاقتصاد الاسلامی
اور چوتھی جو سب سے ڈاڈھی ہے میرے گھر میں، جہاں میری بالکل بھی نہیں چلتی۔
بہرحال مزاح ایک طرف.سردست آج بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا جب ایک مرکزی سطح کے قائد بلکہ عالم دین کو کارکن سطح کی زبان استعمال کرتے ہوئے دیکھا اور پھر اس  سطح کے بیان کو فخر سے سوشل میڈیا کی زینت بنتے دیکھا۔
افسوس صد افسوس
عزت سادات نیلام ہوئی خود ہمارے ہاتھوں سے
دعوی ہمارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار محبت و اتباع کا لیکن عمل ان جیسا کرتے ہوئے جانے یہ محبت کہاں سو جاتی ہے۔

عن أبي عبد الله الجَدَلِي قال: سألتُ عائشة رضي الله عنها ، عن خُلُق رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: «لم يكن فاحِشًا ولا مُتَفَحِّشًا ولا صَخَّابًا في الأسواق، ولا يَجْزي بالسيئةِ السيئةَ، ولكن يَعْفو ويَصْفَح».[ الترمذي وأحمد]

ابو عبداللہ جدلی کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق کے بارے میں پوچھا، تو انھوں نے کہا: “آپ نہ بد زبان تھے، نہ گندی باتوں اور کاموں میں پڑتے تھے، نہ بازاروں میں چیخ اور چلا کر بات کرنے والے تھے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے، بلکہ آپ معافی اور درگزر سے کام لیتے تھے۔
میرے بھائیوں !
خدارا، اختلاف کریں لیکن اخلاق نبوی کو عملی طور پر اختیار کرتے ہوئے۔
ہم جیسے غیر جانبدار دین کے طالب علم اور علماء یا پھر سنجیدہ فکر عوام اندھے نہیں ہیں۔ سب کچھ دیکھ رہے ہیں سمجھ رہے ہیں۔ بس اس تھوڑا کہے کو کافی جانیں۔
دل تو چاہتا ہے کہ باقاعدہ نام لے کر کھلی داستاں بیان کر دوں لیکن سچ کہوں تو ڈر سا گیا ہوں اب گالیاں سننے کا حوصلہ نہیں رہا، پتا نہیں کیوں،
جس کا دل چاہے اسے ان باکس میں بطور نمونہ ایک سکرین شاٹ بھیج دوں گا ایسی لکھنوی تہذیب و تمدن سے بھرپور شستہ و شائستہ گالیاں ہیں میں پورا میسج پڑھنے کی ابھی ہمت نہیں کر سکا، لہذا ہاتھ جوڑ کر التجا کر رہا ہوں خدارا
خدارا، اختلاف کریں لیکن بازاری انداز میں نہیں۔
ہماری باتوں کا حسن اپنی جگہ ہمارا عمل بہترین تبلیغ کرتا ہے اور سب سے خوبصورت پیارا دلارا جان سے بڑھ کر محبوب داعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں سمجھیں جانیں کہ انہوں نے مشرکین، صابئین، یہودی عیسائی مخالفین کی گالم گلوچ، دشنام طرازی، طعن و تشنیع ، تہمتوں کا سامنا کیسے کیا تھا ؟
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

شاہ فیض الابرار صدیقی