اس مسلک کی علمی سند ابن عباس رضی اللہ عنہ سے انکے شاگرد جابر بن زید سے انکے شاگرد ابو الشعشاء اور پھر ان سے انکے شاگرد عبداللہ بن اباض تمیمی ( المتوفیٰ 80 ہجری ) ہے ۔
اس مسلک کی قرآن مقدس کے بعد بنیادی اور اصولی کتابیں یہ ہیں ؛
۱: حدیث میں مسند الربیع بن حبیب اصح الکتاب بعد کتاب اللہ ۔ اہل سنت کے ہاں کی موطا امام مالک ، بخاری و مسلم و دیگر حدیث کی کتب کو بھی اہمیت دیتے ہیں لیکن مسند ربیع کے تابع رکھ کر۔
۲: عقاید میں سالمی کی مشارق الانوار
۳: اصول فقہ میں طلعہ الشمس اور فقہ میں شرح النبیل وشفاء العلیل

( الف): فقہ کے معاملات میں اہل سنت کے قریب تر ہیں۔ چند ایک اختلافات ہیں جو درج ذیل ہیں ؛
۱: وضو کے لئے موزوں پر مسح کو غلط سمجھتے ہیں۔ مسند ربیع میں وضو کے باب پر عائشہ رضی اللہ عنہا و دیگر سے ایسی روایات کا باب ہے جن کے مطابق رسول اللہ ص نے کبھی موزوں پر مسح نہیں کیا۔
۲: نماز کی شروعات ( تکبیر تحریمہ ) سے لیکر سلام پھیرنے تک کہیں بھی ہاتھ اٹھانے ( رفع الیدین ) کے قائل نہیں اور پوری نماز میں ( رکوع سے پہلے یا رکوع سے کھڑے ہوکر ) کہیں ہاتھ باندھنے کے قائل نہیں۔
۳: روزے کو جنابت کی حالت ( یعنی اگر غسل واجب ہو ) میں شروع کرنے سے روزہ نہ ہونے کے قائل ہیں۔ انکے نزدیک ہر ہر عبادت بشمول روزہ کے لئے طہارت واجب ہے۔
۴: صرف ان اہل کتاب کا ذبیحہ حلال سمجھتے ہیں جو جزیے کے زریعے مسلمانوں کے تابع انکے علاقوں میں بستے ہیں۔
۵: غیر وارث رشتہ داروں کے لیے وصیت کو واجب کہتے ہیں ۔

( با ): عقائد میں معتزلہ کے ساتھ ہیں اور اہل سنت سے درج ذیل اختلافات رکھتے ہیں؛
۱: مسئلہ خلق قرآن میں معتزلہ کے حامی ہیں۔
۲: قیامت کے روز یا جنت میں بھی اللہ کا دیدار ممکن نہیں ۔ یعنی اس معاملے پر بھی معتزلہ کے ساتھ ہیں۔
۳: اللہ پاک کی صفات عین زات ہیں ۔
۴: مسلمان کا گناہوں والا پلڑا بھی اگر جھک گیا تو اس کے لئے بھی ہمیشہ ہمیشہ کی جہنم ہے۔ جہنم میں داخلے کے بعد نکلنے کا کوئی سوال نہیں۔
۵: رسول اللہ ص کی شفاعت صرف ان چھوٹے موٹے گنہگاروں کے لئے ہے جنکا اللہ نے بخشش کا فیصلہ کرلیا۔ کبائر کے مرتکب لوگوں کے لئے کوئی شفاعت نہیں۔
۶: آخرت سے متعلق روایات میں پل صراط اور اس طرح کی چیزوں کو حقیقت کی بجائے تمثیل پر لیکر جاتے ہیں۔

( ج ): اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے مابین انتشار کی تاریخ کو اس طرح دیکھتے ہیں؛

۱: خلفاء راشد / آئمہ راشد ( آئیدیل ) صرف ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہا ہیں۔
۲: عثمان رضی اللہ عنہ کا نصف دور آئیڈیل جبکہ اگلہ نصف دور قابل تنقید ہے۔
۳: علی رضی اللہ عنہ  کا جنگ نہروان سے پہلے کا دور بہتر جبکہ اس جنگ اور اسکے بعد والا دور قابل تنقید اور اہل حق کے خلاف جابر حکمرانی کا دور ہے۔
۴: معاویہ رض کا دور قابل تنقید
۵: ام المومنین عائشہ رض کا علی رض کے سامنے آنا انکی اجتہادی خطاء تھی ۔

(د) : صوفیاء ( جنھیں ہمارے ہاں لوگ اولیاء اللہ کہتے ہیں ) انھیں یہ لوگ بدعتی اور تصوف کو بدعت مانتے ہیں ۔ توحید ، شرک اور بدعت کے معاملات میں بالکل ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کی طرز کے لوگ ہیں۔

مزکورہ بالا باتوں کے علاوہ تقریباً ہر چیز میں وہ بالکل اہلسنت کی طرح ہی ہیں۔

کامران الٰہی ظہیر