مرزا غلام احمد قادیانی ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت ہیں جن کی زندگی کو مختلف ادوار میں تقسیم کرکے داستان تگ و تاز اور ان کے افکار و خیالات سے آگاہی حاصل ہو گئی مرزا غلام احمد قادیانی نے شہادت القرآن کے نام سے کتاب لکھ کر در حقیقت وفات مسیح کے عنوان پر ایک نئے باب کو کھولا مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی پر اگر نظر دوڑائی جائے تو مرزا غلام احمد قادیانی بقلم خود لکھتے ہیں:
“میری پیدائش 1839ء یا 1840ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی ہے اور میں 1857ء میں سولہ برس کا یا سترھویں برس میں تھا اور ریش و برودت کا آغاز نہیں تھا۔‘‘

(1)مرزا غلام احمد قادیانی کے خلیفہ اور ان کے فرزند مرزا بشیر احمد نے مختلف خاندانی اختلافات ذکر کرنے کے بعد ایک صحیح تاریخ درج کرتے ہوئے لکھا ہے ہے ہے.”پس 13 فروری 1835 عیسوی بمطابق 14 شوال 1250 ہجری بروز جمعہ والی تاریخ صحیح قرار پاتی ہے۔‘‘

(2)اگر مرزا غلام احمد قادیانی کی کتاب البریہ میں درج تاریخ ولادت درست تسلیم کی جائے تو مرزا صاحب کی کل عمر ولادت تا وفات تقریباً 68 برس بنتی ہے اور اگر ان کے فرزند کی طرف سے درست قرار دی گئی تاریخ ولادت دیکھی جائے تو مرزا غلام احمد قادیانی کی کل زندگی تہتر برس کے قریب بنتی ہے۔
مرزا غلام احمد کی زندگی مختلف انقلابات میں گھری ہوئی دیکھی جاتی ہے مرزا غلام احمد قادیانی تادمِ واپسیں مختلف خیالات و افکار اور نظریات کے ہجوم میں گھرے نظرآتے ہیں مرزا غلام احمد قادیانی کے نظریات میں سے ایک نظریہ مسیح علیہ السلام کی وفات کا بھی ہے اور اس سے اپنے لیے تمثیلی مسیحیت کی راہ ہموار کرنا اس میں شامل ہے جسے ہم اپنے تحقیقی (شہادت القرآن از مرزا غلام احمد قادیانی و مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کا تجزیاتی مطالعہ)مقالہ کی سطور میں لکھ چکے ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے مختلف دعاوی اپنی زندگی میں کیے ان کو بڑے تین سنگ میل میں تقسیم کرتے ہوئے عہد حاضر کے عظیم مؤرخ ڈاکٹر بہاء الدین محمد سلیمان اظہر نے لکھا ہے۔
“اس تحریک کا پہلا سنگ میل جنوری1891 ہیں جب مرزا غلام احمد نے مثیل مسیح ہونے کا دعوی کیا اور ایک مسلمان عالم نے اس کی تردید کا بیڑا اٹھایا دوسرا سنگ میل مئی 1901 ہے جب مرزا غلام احمد مثیل مسیح سے ترقی کر کے بزعم خود نبوت کے منصب پر فائز ہوئے اور تیسرا سنگ میل مئی 1908 ہے جب مرزا صاحب ایک مسلمان عالم کے خلاف ایک دعا کا اشتہار شائع کرنے کے نتیجے میں راہی ملک عدم ہو گئے”

(3) پیدائش سے 1891 تک مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی میں کبھی یہ عقدہ کھلا کہ وہ مسئلہ مسئلہ ہے یا پھر مسیح علیہ السلام اپنی طبعی عمر پوری کر کے فوت ہو چکے ہیں زندگی کے ان برسوں میں مرزا غلام احمد قادیانی حیات مسیح کے نہ صرف قائل بلکہ مرزا صاحب کے قلم سے اس کے حق میں دلائل بھی دیے گئے جیسا کہ ڈاکٹر بہاء الدین محمد سلیمان اظہر نے حاصل تحقیق لکھا ہے۔
“براہین احمدیہ کی پہلی چار جلدوں میں مرزا صاحب نے حیات و نزول مسیح کا اقرار کیا تھا اور عقیدہ ختم نبوت کی توثیق بھی کی تھی”۔

(4) مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوی مسیحیت کے ضمن میں ڈاکٹر بہاوالدین جو نتیجہ تحقیق سامنے لائے ہے وہ ان الفاظ میں ہے”اپنی اہم بات کا آغاز ہم بٹالہ(ضلع گورداسپور) کہ ایک نامور عالم دین مولانا ابو سعید محمد حسین بٹالوی کے ایک خط سے کرتے ہیں جو انہوں نے 31 جنوری 1891 کو لاہور سے مرزا غلام احمد قادیانی کو تحریر فرمایا تھا خط یوں ہے:
“آپ کا رسالہ امرتسر میں چھپ رہا تھا کہ میں اتفاقاً امرتسر پہنچا میں نے اس رسالہ کا پروف مطبع ریاض ہند سے منگوا کر دیکھا اور پڑھوا کر سنا اس رسالہ کے دیکھنے اور سننے سے مجھے یہ سمجھ آیا کہ آپ نے اس میں دعوی کیا ہے کہ مسیح موعود جس کے قیامت سے پہلے آنے کا خدا نے اپنے کلام میں اشارۃً تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کلام مبارک میں صراحتاً وعدہ دیا وہ آپ ہی ہیں جو مسیح ابن مریم کہلاتے ہیں اگر اس زاویے سے کچھ اور مراد ہے تو اس کی توضیح کریں۔
مرزا غلام احمد نے جواب میں لکھا : مخدومی اخویم السلام علیکم آپ کے استفسار کے جواب میں صرف ہاں کافی سمجھتا ہوں والسلام خاکسار غلام محمد 5 فروری 1891 ء”

(5)مرزا غلام احمد اس خط و کتابت سے پہلے حیات مسیح کے ناصرف قائل بلکہ اس کے شدومد سے پرچارک بھی تھے جیسا کہ ان الفاظ سے واضح ہے۔ ” حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا پر اتریں گے اور تمام راہوں اور سڑکوں کو خس و خاشاک سے صاف کر دیں گے اور کج اور نا راست کا نام و نشان نہ رہے گا ۔ اور جلال الہی گمراہی کے تخم کو اپنی تجلی قہری سے نیست و نابود کر دے گا۔”

(6) اپنی دوسری کتاب میں بھی مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے اسی عقیدے کا اظہار کیا ہے
“اور نازل ہونا عیسی بن مریم کا بسبب متواتر احادیث صحیحہ کے بلکل حق ہے اور یہ امر احادیث میں مختلف طریقوں سے ثابت ہوچکا ہے۔”

(7) مرزا غلام احمد قادیانی نے اگرچہ 1891 میں دعوائے مسیحیت کردیا تھا لیکن شہادت القرآن کے نام سے یہ کتاب مرزا غلام احمد قادیانی نے 1893 میں لکھی جس میں مرزا غلام احمد قادیانی مسیحیت کا دعویٰ کیا اور کھلے لفظوں میں خود کو وہ مسیح قرار دیا جس کا نام عیسی بن مریم ہے قرآن مجید کی آیات کی من چاہی تفسیر کرتے ہوئے مرزا غلام احمد قادیانی جہاں تفسیری خیانت کا شکار ہوئے وہیں انہوں نے پوری شد و مد سے چودھویں صدی کے آغاز میں ایک مسیح موعود کی آمد کا نظریہ پیش کیا اور آیات قرآنی اور احادیث نبوی کے مفاہیم میں نہ صرف خیانت کی بلکہ احادیث میں بیان کردہ تمام تر علامات مسیح کو اس انداز سے جھٹلایا کہ حدیث کی حجیت کو جو کتاب کے ابتدائی مندرجات میں ثابت کرنے کی کوشش کی تھی اسے ہی چیلنج کردیا۔ اس سب کی وجہ صرف ایک تھی اور وہ یہ کہ مسیحیت کا ہما اپنے سر سجایا جاسکے لہذا مرزا غلام احمد قادیانی اس میں کامیاب رہے اسی لیے مرزا غلام احمد کے خلیفہ مرزا محمود نے لکھا ہے:
“حضرت مسیح موعود ( مرزاقادیانی) کے دعوے سے پہلے جس قدراولیاءصلحاء گذرے ہیں ان میں سے ایک بڑا گروه عام عقیده کے ماتحت حضرت مسیح (عیسی ) علیہ السلام کو زندہ خیال کرتا ہے.”
یعنی مرزا غلام احمد وہ شخص ہیں کہ جنہوں نے وفات مسیح کا نظریہ اپنایا اگرچہ اس نظریے میں برصغیر ہند و پاک کی چند دیگر نمایاں شخصیات بھی شامل تھیں لیکن مرزا غلام احمد ان سب سے اس لیے جداگانہ حیثیت اس لیے بنائی کہ آپ نے ناصرف وفات مسیح کا نظریہ پیش کیا بلکہ اس نظریے کی بنیاد پر آیات و احادیث میں معنوی تحریف کا ارتکاب کرتے ہوئے حیات مسیح کے متعلق خود کے لیے مسیح موعود کا نظریہ اختراع کرکے ایک ایسے تنازع کی بنیاد رکھی کہ جو آج بھی موجود ہے اسی ضمن میں مرزا صاحب نے شہادت القرآن کے نام سے اپنی یہ کتاب لکھی اس کتاب میں جس انداز سے مرزا صاحب قیامت، علامات قیامت اور قرب قیامت وقوع پذیر ہونے والے واقعات و حالات اور معجزات و خوارق عادت معجزات کی تاویل کی ایک خاصی تعداد اس کے زیر اثر ہے تردید قادیانیت میں حیات مسیح ایک بنیادی موضوع قرار پایا ہے۔ تفسیر قرآن و استدلال کا جو انداز مرزا غلام احمد نے اس کتاب میں اپنایا اس کے اثرات بعد کے مذہبی ادب پر بھی دکھائی دیتے ہیں۔

“وکنت علیھم شھیداً مادمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم (مائدہ: 117) ‘‘

اس آیت کو شہادت القرآن میں مرزا صاحب نے درج کر کے اس بات پر حجت قائم کی ہے کہ عیسی علیہ السلام اپنی طبعی موت فوت ہوچکے اور اب وہ دوبا اس دنیا میں نہیں آئیں گے اس آیت پر بہت ہی تفصیل کے ساتھ بحث مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی کتاب کے مندرجات کے تحت گزشتہ سطور میں کی جا چکی اس آیت کا ترجمہ مرزا غلام احمد کے جانشین مرزا بشیر الدین نے اپنے پیشرو مرزا غلام احمد کے بیان کردہ اصول کے مطابق ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
’’اور جب تک میں ان میں (موجود) رہا۔ میں ان کا نگران رہا۔ مگر جب تو نے میری روح قبض کرلی، تو تو ہی ان پر نگران تھا۔ ‘ ‘

(9) شہادۃ القرآن بنیاد ہے مرزا غلام احمد کے دعوی مسیحیت کی اور اس کے اثرات خود مرزا غلام احمد قادیانی کے قلم پر دکھائی دیتے ہیں۔ اس کتاب میں دعویٰ ہے تو اس کے بعد اس دعوے کی تصدیق و تائید اور وضاحت جیسا کہ گذشتہ سطور میں گزرا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے موسوی، محمدی مسیح کی ایک اصطلاح پیش کی ہے پھر اسی کے تحت پرانے مسیح کی آمد کا انکار کیا اور ایک نئے مسیح کی پیدائش لکھی یہ نظریہ جو شہادت القرآن میں بیان کیا اس کے بعد اس کی جہاں ضرورت محسوس ہوئی لکھا بھی اور بیان بھی کیا لہجہ ملاحظہ ہو مرزا صاحب کا نظریہ مسیح محمدی اور مسیح موسوی لہذا مرزا صاحب لکھتے ہیں: “پھر جب خدا اور اس کے رسول نے اور تمام نبیوں نے آخری زمانہ کے مسیح کو اس کے کارناموں کی وجہ سے افضل قرار دیا ہے تو پھر شیطانی وسوسہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ کیوں تم مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں افضل قرار دیتے ہو”۔

(10) شہادت القرآن مرزا غلام احمد قادیانی کی وہ باضابطہ تصنیف تھی جیسے مرزا غلام احمد نے حیات مسیح کی تردید اور وفات مسیح کی تائید میں لکھا اور اس کے ساتھ ہی اپنے تئیں مسیح موعود قرار دینے کی راہ بھی ہموار کی اس لئے اپنی ایک دوسری تصنیف میں اپنے خیالات ان الفاظ میں لکھتے ہیں۔
“اور سوچنے سے ظاہر ہوگا کہ میرے دعوی مسیح موعود ہونے کی بنیاد انہیں الہامات سے پڑی ہے اور انہیں میں خدا نے میرا نام عیسی رکھا اور جو مسیح موعود کے حق میں آیتیں تھیں وہ میرے حق میں بیان کردیں”

(11)ٓ مرزا غلام احمد قادیانی کے مطابق انہوں نے قرآن حکیم کی تیس آیات سے مسیح علیہ السلام کی وفات ثابت کی ہے لہذا مرزا صاحب لکھتے ہیں۔ “قرآن شریف کی وہ 30 آیتیں جن سے مسیح ابن مریم کا فوت ہونا ثابت ہوتا ہے”

(12) مرزا غلام احمد قادیانی کے آن لائن اور ان کے اثرات کے حوالے سے مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اپنی کتاب کی طبع ثالث کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:

صاحبان! شہادت القرآن کا پہلا حصہ جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رفع آسمانی نو آیاتِ قرآنیہ سے ثابت کی گئی، اول مرتبہ ماہِ رجب 1321ھ میں طبع ہوا۔ اس کے بعد اس کا دوسرا حصہ جس میں ان تیس دلائل کا جواب ہے جو مرزا غلام احمد نے صاحب مدعی مسیحیت و نبوت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات قبل النزول پر بزعم خود قرآن شریف سے پیش کئے تھے، مرزا صاحب کی زندگی ہی میں رمضان1323 میں طبع ہوا۔ مرزا صاحب 24 ماہ ربیع الآخر 1326ھ بمطابق 26؍مئی1908ء کو بروز منگل(سہ شنبہ) میلہ بھدر کالی کے دن بمقام لاہور فوت ہوئے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کو شہادت القرآن کا جواب لکھنے کے لئے کئی سال کی مہلت ملی، لیکن نہ تو جناب مرزا صاحب نے آنجہانی کو ہمت ہوئی اور نہ ان کی زندگی میں ان کی جماعت کے کسی عالم یا مدعی علم کو جرأت ہوئی۔”

(13)ان دونوں کتب کے آئندہ کے مذہبی ادب پر کیا اثرات مرتب ہوئے تو بہت حد تک واضح ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی اس تصنیف کے اثرات قادیانیت میں حد درجہ موجود ہیں یہ کتاب بھی قادیانیت کے ان مصادر میں سے ہے جن پر قادیانیت کا علمی وجود قائم ہے اور دوسری طرف مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی کتاب شہادت القرآن کے اثرات کو اگر دیکھا جائے تو اس کے متعلق اس دور کی معروف شخصیت پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے لکھا ہے۔

محمد بلال ربانی سیالکوٹی