اک گونجتی آواز جو خاموش ہوگئی

اصغر زیدی۔۔ نہ جانے وہ کیا کہتے،

میں اس دن ان کی کال پک نہیں کر سکا،
اور وہ ان کی آخری کال تھی،اس کے بعد کل خبر ملی، وہ وہاں چلے گئے جہاں سے سب کو کال آتی ہے، مگر وہاں سے کسی کو کسی کی کال نہیں آتی، اس دن میں سفر میں تھا اور سفر میں بھی فرصت نہ تھی، ایک میٹنگ کیلئے نکلے تھے اور ظاہر ہے، گاڑی میں ویسی فرصت میسر نہ تھی، چنانچہ سوچا بعد میں کال آ جائے گی یا میں کال کر لوں گا۔
مگر پھر ایسا نہ ہو سکنا تھا،یہ مجھے معلوم نہ تھا۔
کل افضل مشکوة صاحب نے ریڈیو پاکستان کے فیس بک پیج سے یہ خبر شئیر کی کہ ریڈیو کا ایک معروف نام،اصغر زیدی اب نہیں رہے تو مجھے ان کی آخری کال نہ سن سکنے کی روداد یاد آگئی۔
اصغر زیدی سے پہلی ملاقات تو کہیں اور ہوئی تھی، ملاقاتوں کا سلسلہ مگر پیغام ٹی وی میں شروع ہوا۔ ریڈیو کے وہ آرٹسٹ تھے اور پیغام ٹی وی میں وائس اوور کیلئے تشریف لایا کرتے تھے، آواز پاٹ دار تھی، تکنیکی زبان میں کہیں تو Base والی، جو لفطوں میں مزید معنی اور اعتبار بھر دیتی۔ ایک طویل عرصہ انھوں نے یہ خدمات سر انجام دیں، چنانچہ ملاقات مسلسل رہی،وہ محض وائس اوور آرٹسٹ ہی نہ تھے، ایک شاندار ادبی ذوق کے حامل زندہ دل انسان بھی تھے،میں کبھی اندازہ نہیں کر سکا کہ انھیں کتنے اشعار یاد ہوں گے،مگر وہ برمحل اشعار پڑھتے چلے جاتے،وہ اردو کے سچے عاشق تھے، کہیں سے کوئی اچھا شعر ملتا یا اچھا جملہ ، ایک ڈائری میں سب درج کرتے جاتے، انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ ابوالکلام آزاد کی کتب سے سینکڑوں کی تعداد میں نئے لفظ انھوں نے اپنی ڈائری میں اتارے تھے۔یہی نہیں کہ وہ باذوق آدمی تھے، وہ ایک بہت اچھے انسان بھی تھے،اخلاق اور احترام ان میں لکھنو کا سا جھلکتا تھا،بعد میں کام کم بھی ہوگیا تھا تو محض ملاقات کے لیے خاص طور پر وقت نکال کے تشریف لاتے، ڈھونڈ کے ملتے اور فون تو ان کا ایک وقفے کے بعد ضرور آ جاتا، محض حال چال پوچھتے، اپنے متعلق بات کرتے تو شکرکی کیفیت میں ڈوب ڈوب جاتے، القصہ وہ عجیب طرح کے آدمی تھے، میں نے زندگی میں جن چند دائم خوش، ہمیشہ کے مطمئن ، سراپا شاد اور ہرے بھرے لوگوں کو دیکھا ہے،ان میں سے وہ ایک تھے،مسکراہٹ اور قہقہہ اچھال دینے کیلئے انھیں کسی بڑی وجہ کی ضرورت نہ ہوتی تھی،آخری بھرپور ملاقات ان کے گھر پر ہوئی تھی، اس دن فخرالاسلام صاحب نے کہا تھا،ادھر چلنا ہے،میں خوشی سے ساتھ ہو لیا تھا، وہ چائے لائے، بہت دیر تک باتیں کرتے رہے۔ وہی زندہ دلی، وہی شعر گوئی،وہی ادبی گفتگو، میر و غالب کے قصے کہے سنے گئے، ان کے ایم اے اردو کرنے کے واقعات اور پھر بچوں کے متعلق باتیں۔مطمئن وہ اتنے تھے کہ گویا رگوں میں لہو کی جگہ اطمینان دوڑتا ہو۔ اللہ اللہ ایسے مطمئن لوگ بھلا کہاں اور کتنے ملتے ہیں، لوگ دولت کے ڈھیر اور آسائش کے ریشم پر بیٹھے ناشاد ملتے ہیں،لوگ ارب پتی ہوتے ہوئے بھی سکون کو ترستے ملتے ہیں۔ یہ دولت مگر اصغر زیدی کو مل گئی تھی۔ لیجئے صاحب، وہ مطمئن اور آسودہ روح، وہ توانا اور زندگی بھری آواز خاموش ہوئی ،قبر میں جا سوئی۔جہاں ہمیں بھی جا سونا ہے۔آج میں سوچتا ہوں، وہ ان کی آخری کال اگرچہ میں نہیں سن سکا،لیکن سنتا بھی تو کونسا وہ بدلے ہوئے ملنے تھے۔ وہ آسودہ تھے، وہ مطمئن جیے اور اطمینان ہی ان کی زندگی کا خلاصہ اور عنوان تھا۔ دعا ہے کہ خدا اگلے سفر میں بھی اس کا اطمینان قائم رکھے۔