علم کے مختلف مراتب و درجات

علم کے کئی مراتب ہیں، جو نہ تو یک دم حاصل ہوتے ہیں اور نہ ہی ان تک چھلانگیں لگا کر پہنچا جا سکتا ہے۔

پہلا مرتبہ: دعوتِ حق۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ آپ حق کو آسان بنا کر پیش کریں، اس کی شرح و وضاحت کریں، اور اسے لوگوں کے لیے ان کی قابلِ فہم زبان میں قریب لائیں۔ آپ کا اصل مقصود تاریکی کو مٹانے سے پہلے نور کو پہنچانا ہو۔

دوسرا مرتبہ: مخالفین کی تردید۔ یہ ایک بلند تر مقام ہے؛ کیونکہ اس کے لیے آپ کو مخالفین کے شبہات سے واقفیت، ان کی گفتگو میں سے کھرے اور کھوٹے کو پرکھنے کی صلاحیت، اور ساتھ ہی خود کو لغو اور بے مقصد بحث و تکرار کی دلدل میں گرنے سے بچانے کے لیے ضبطِ نفس کی ضرورت ہوتی ہے۔

تیسرا مرتبہ: مناظرہ۔ یہ تمام مراتب میں سب سے خطرناک اور نازک ترین ہے؛ کیونکہ یہ ایک براہِ راست فکری معرکے کا میدان ہے، جس کے لیے حاضر دماغی، وسعتِ علمی، قلبی ثبات، اور حسنِ اخلاق درکار ہوتا ہے۔ ہر عالم بھی اس کا اہل نہیں ہوتا، چہ جائیکہ کوئی طالب علم۔ کیونکہ بسا اوقات مناظرہ اسے غرور میں مبتلا کر دیتا ہے یا اسے کمزوری کے ان مقامات پر گرا دیتا ہے جن کا اسے خود بھی ابھی ادراک نہیں ہوتا۔ (اور یہ بھی یاد رہے کہ مناظرے کے کچھ مخصوص احوال و شرائط ہیں)!

اور میں نے بعض طلبہ کو دیکھا ہے کہ وہ براہِ راست تیسرے مرتبے پر چھلانگ لگا دیتے ہیں؛ دعوت کے اصولوں کو اپنے اندر جذب کرنے اور تردید کے فن میں مہارت حاصل کرنے سے پہلے ہی مناظرے کے میدان میں چھلانگ مارتے ہیں۔ یہ ایک سنگین منہجی خامی ہے؛ کیونکہ جو شخص علم کے ابتدائی مراتب میں پختگی حاصل نہیں کرتا، وہ تیسرے مرتبے میں جا کر اپنا وقار گنوا بیٹھتا ہے، اور بسا اوقات حق کا حامی و ناصر بننے کے بجائے خود حق کے لیے ایک فتنہ بن جاتا ہے!

اور اس پر مستزاد یہ کہ—جو مصیبت پر مصیبت ہے—ان لوگوں نے حقیقی اور پختہ کار علماء کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا ہوتا، چنانچہ وہ اہل علم کی رہنمائی اور ان کے علوم کی گہرائی کو سمجھنے کی توفیق سے بھی محروم رہتے ہیں۔

ياسر حمد ملوح البصري التميمي

یہ بھی پڑھیں:قرآن کریم اور رزق کی تلاش!