افتا ایک عظیم منصب ہے۔ پس وہی عالم فتویٰ دے جو اس عظیم منصب کا اہل ہو۔ جس کے پاس متعلقہ مسئلے کے بارے میں علم اور بصیرت ہو. جو لوگ اپنے میلانِ نفس کے مطابق حلال و حرام کے فتوے جاری کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فعل کا انکار کیا ہے.

(یونس 59، 60، و النحل 116، 117.)
یہ ایک گناہِ کبیرہ ہے کہ آدمی اس شے کو حلال، حرام، واجب یا غیر واجب قرار دے جس کے بارے میں وہ اللہ کے حکم سے واقف نہیں۔ یہ گناہ اور سوئے ادب ہے۔ حق تعالیٰ نے بغیر علم کے کہی ہوئی بات کا ذکر شرک کے ساتھ کیا ہے۔ (الأعراف 33.)
بغیر علم کے افتا مستفتی کے ساتھ بھی زیادتی ہے. یہ اسی طرح ہے جیسے کوئی کسی کو غلط راستہ بتائے. بعض طلبۂ علم جو آدھے ادھورے علماء بنے ہوتے ہیں، وہ بھی حلال و حرام وغیرہ کے بارے میں فتویٰ بازی شروع کر دیتے ہیں حالانکہ وہ احکامِ الٰہی سے پوری طرح واقف نہیں ہوتے. وہ ایسی قطعیت سے بات کرتے ہیں گویا ان پر وحی نازل ہو رہی ہو. وہ پھر اس پر اکتفا نہیں کرتے کہ اپنی رائے کو وہ اپنے آپ سے منسوب کر لیں بلکہ وہ اس رائے کو اسلام سے منسوب کر دیتے ہیں کہ اسلام یوں کہتا ہے، اسلام کی رائے اس سلسلے میں یوں ہے. اس طرح کہنا جائز نہیں الا یہ کہ قائل کو بخوبی علم ہو کہ اس بات کا تعلق اسلام سے ہے. اور یہ جاننے کا صرف ایک ذریعہ ہے، وہ ہے کتاب اللہ، سنت رسول اور اجماع مسلمین کا علم.
عقل، ایمان اور تقویٰ کا تقاضا یہ ہے جس شے کا علم نہ ہو، اس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ مجھے اس کا علم نہیں، کسی اور سے پوچھ لو. اس طرح لوگ عالم پر اعتماد کریں گے. خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت بھی یہی تھی. آپ دین کے سب سے بڑے عالم تھے. اس کے باوجود اگر کسی امر کے متعلق وحی نہ آئی ہوتی اور آپ سے اس کے متعلق سوال ہوتا تو آپ توقف فرماتے تا آنکہ وحی نازل ہوتی اور حق تعالیٰ کی طرف سے اس سوال کا جواب آتا. (المائدة 4، و الكهف 83، و الأعراف 187.)
جلیل القدر صحابہ کو بھی اگر کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہوتا جس کے حکم سے وہ واقف نہ ہوتے تو وہ اس کے بارے میں توقف کرتے. حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے تھے:

أي سماء تظلني و أي أرض تقلني إذا أنا قلت في كتاب الله بغير علم.

کون آسمان میرے اوپر سایہ فگن ہوگا اور کون زمین میرا بوجھ اٹھائے گی اگر میں کتاب اللہ کے بارے میں کوئی بات بغیر علم کے کہوں.
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو بھی اگر کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ بڑے صحابہ کو بلا بھیجتے اور ان سے مشورہ کرتے. امام ابن سیرین کہتے تھے کہ نا معلوم مسئلے سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی ہیبت زدہ نہیں ہوتا تھا. ان کے بعد نامعلوم مسئلے سے حضرف عمر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی ہیبت زدہ نہیں ہوتا تھا.
حضرت ابن مسعود رض نے ایک مرتبہ فرمایا: جس شخص سے علم کا کوئی ایسا سوال کیا جائے جس کا جواب اسے معلوم ہو، وہ جواب دے. جسے جواب نہ آتا ہو، وہ کہہ دے کہ الله أعلم، یعنی الله تعالیٰ زیادہ بہتر جانتا ہے کیونکہ کسی مسئلے کے متعلق یہ کہہ دینا بھی علم ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ زیادہ بہتر جانتا ہے.
امام شعبی سے ایک مسئلہ پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ مسئلہ مجھے اچھی طرح نہیں آتا. شاگردوں نے کہا کہ ہمیں آپ کے لیے شرمندگی محسوس ہو رہی ہے. امام شعبی نے کہا لیکن فرشتوں کو یہ کہتے ہوئے شرمندگی محسوس نہیں ہوئی تھی۔

( لا علم لنا إلا ما علمتنا}

(افاداتِ عثیمین، ماخذ: کتاب العلم، اخذ و ترجمہ: ح ق ح۔)

حافظ قمر حسن