سوال (3802)

جو بھائی دو وتر چھوڑ کر تیسرے میں مل جاتیں ہیں کیا ایسا کرنا درست ہے؟

جواب

امام کی نیت کفایت کرتی ہے، امام کی جو نیت ہو اس طرح مقتدی کو نماز پڑھنی چاہیے، ہمارے ہاں یہ طریقہ غلط ہے کہ آگے والا تین پڑھ رہا ہے، پیچھے والا ایک پڑھ رہا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

مقتدی امام کی نیت کے مطابق ہی نماز ادا کرے گا، جب امام نے تین رکعت وتر ادا کیے ہیں تو اس کے پیچھے مقتدی بھی تین رکعات ہی ادا کرنے کا پابند ہے، صرف ایک رکعت ادا کرنا درست نہیں ہے۔

فضیلۃ العالم امان اللہ عاصم حفظہ اللہ

سائل: شیخ اس پہ کوئی صریح نص بھی ہے یا وہی امام کی اقتدا کرنے والی غیر صریح نص ہے، کیونکہ فرض کے پیچھے نفل بھی تو پڑھیں جاتی ہے جہاں امام کی نیت مقتدی سے مختلف ہوتی ہے۔
جواب: امام تین وتر کی جماعت کروا رہا ہو تو اس کے پیچھے آخری رکعت میں مل کر صرف ایک ہی رکعت پڑھ کر امام کے ساتھ سلام پھیرنے والے کا وتر درست نہیں، کیونکہ تعداد رکعات میں مقتدی کو امام کی نیت کی پابندی کا التزام کرنا ہوگا۔ یہ مقیم امام کے پیچھے مسافر مقتدی کی نماز جیسا معاملہ ہے۔ جب امام نے چار رکعات پڑھنی ہیں تو پھر اس کے پیچھے مسافر مقتدی آخری ایک یا دو رکعات میں مل کر صرف دو پڑھنے پر اکتفا نہیں کرسکتا، بلکہ اسے امام کی طرح چار رکعات ہی پڑھنی ہوں گی۔ ابو مجلز نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے پوچھا تھا کہااگر کوئی مسافر کسی قوم کے ساتھ باجماعت دو رکعات پا لے تو کیا اسے دو ہی کافی ہیں یا وہ ان (مقیم) لوگوں کے مطابق ہی نماز پڑھے گا؟ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے مسکرا کر فرمایا:وہ مسافر ان لوگوں کی نماز کے برابر ہی پڑھے گا۔ (السنن الکبری، للبیھقی:5503، تحقیق:محمد عبدالقادر عطا) اس روایت کو امام البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔(ارواء الغلیل، بتحقیق زھیر الشاویش، ج،3، ص،22) یعنی امام کی نیت کی گئی تعداد رکعات سے کم پر مقتدی کا سلام پھیر دینا درست نہیں ہے۔ لہذا تین رکعات وتر پڑھانے والے امام کے پیچھے کوئی مقتدی اگر صرف ایک رکعت پا کر امام کے ساتھ ہی سلام پھیر دیتا ہے تو اس کا یہ عمل درست نہیں۔ اسے وتر کی رکعات امام کی نیت شدہ رکعات کے برابر ادا کرنا ہوں گی۔ واللہ اعلم۔

فضیلۃ العالم امان اللہ عاصم حفظہ اللہ

سوال: وتر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا فرض ہے؟

جواب: نہیں

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: تروایح جماعت کے ساتھ آخر میں ایک وتر پڑھا جاسکتا ہے؟

جواب: اگر امام صاحب ایک پڑھائیں تو ایک پڑھیں، تین تو تین پڑھیں یا پھر اپنا الگ پڑھیں جو چاہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعت پڑھی ہیں، وتر سمیت تو اگر ایک پڑھی گئی تو یہ تعداد نو بنتی ہے، گیارہ سنت ہے، اب اگر امام ایک پڑھاتا ہے تو یہ سنت کے خلاف تو نہیں ہوگا؟

جواب: ہماری بحث اس پر ہے کہ سنت گیارہ رکعت ہے، اولی یہ ہے کہ تین وتر پڑھیں، باقی ایک بھی پڑھ سکتے ہیں، تین، پانچ، سات وتر احادیث سے ثابت ہیں، ہم ان کا انکار نہیں کر سکتے ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: کیا وتر اور تراویح الگ الگ نمازیں ہیں؟

جواب: جی ہاں قیام اللیل و تراویح کے نوافل الگ ہیں اور وتر الگ نماز ہے،

1-حديث ابن عمر رضي الله عنهما أن رجلاً سال النبي صلى الله عليه وسلم كيف صلاة الليل؟ قال: ( مثنى مثنى، فإذا خفت الصبح فأوتر بواحدة ) رواه البخاري.

2- حديث عائشة رضي الله عنها قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي وأنا راقدة معترضة على فراشه، فإذا أراد أن يوتر أيقظني فأوتر. رواه البخاري.

ان دونوں قولی و فعلی حدیث سے تفریق واضح ہے۔

باقی من حیث الجموع رات کے تمام نوافل کو وتر نماز طاق بنادیتی ہے۔

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

ایک جہت سے الگ بھی ہیں، ایک جہت سے ایک بھی ہیں، وتر، تراویح، تھجد، قیام اللیل،  قیام رمضان، تطوع اور نفل ایک ہی چیز قیام اللیل کے لیے مستعمل ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ