امام سفیان بن سعید ثوری رحمہ اللہ کا مقام اور طلباء کے لیے نصیحت
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں، مجھے امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے کہا :
’’آپ مرتے دم تک سفیان ثوری جیسا بندہ نہیں دیکھیں گے۔‘‘ (مسائل الکوسج : ٥٩٢)
یعنی امام ابن عیینہ رحمہ اللہ کے نزدیک ان کے زمانے میں علم و عمل میں ثوری رحمہ اللہ جیسا دیندار کوئی نہیں ہے۔
نیز ابن عیینہ فرماتے ہیں :
’’محدثین تو تین لوگ تھے، ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنے زمانے میں، عامر شعبی رحمہ اللہ اپنے زمانے میں اور سفیان ثوری اپنے زمانے میں۔‘‘ (سير أعلام النبلاء للذهبي : ٧/ ٢٤٠)
عباس الدوری بیان کرتے ہیں کہ ’’یحیی بن معین رحمہ اللہ اپنے زمانے میں فقہ، حدیث، زہد بلکہ ہر چیز میں سفیان ثوری سے مقدم کسی کو نہیں سمجھتے تھے۔‘‘ (أيضا)
یونس بن عبید رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے سفیان ثوری سے افضل شخص کوئی نہیں دیکھا۔ پوچھا گیا : آپ نے تو سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی، عطاء بن ابی رباح اور مجاہد بن جبر رحمہم اللہ کو دیکھا ہے، پھر بھی یہ بات کرتے ہیں؟ فرمایا : جی ہاں، پھر بھی یہی بات کرتا ہوں کہ میں نے سفیان ثوری سے افضل بندہ کوئی نہیں دیکھا ۔ (أيضا)
بلکہ بشر حافی رحمہ اللہ سے تو مروی ہے کہ ’’سفیان ثوری کا اپنے زمانے کے لوگوں میں وہی مقام تھا جو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا اپنے زمانے کے لوگوں میں تھا۔‘‘ (سير أعلام النبلاء : ٧/ ٢٣٩)
اسحاق بن راہویہ بیان کرتے ہیں کہ امام عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ نے امام سفیان ثوری، امام شعبہ بن حجاج، امام مالک بن انس اور امام عبد اللہ بن مبارک رحمہم اللہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ’’ان سب میں علم کو سب سے زیادہ جاننے والے سفیان ثوری ہیں۔‘‘ (حلية الأولياء : ٦/ ٣٦٠)
ابو اسامہ حماد بن اسامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جو بندہ آپ سے یہ کہے کہ اس نے (اپنے دور میں) سفیان ثوری رحمہ اللہ جیسا کوئی بندہ دیکھا ہے تو آپ اس کی بات پر ہرگز یقین نہ کریں۔‘‘ (حلية الأولياء : ٦/ ٣٥٩)
امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’میں (اس زمانے میں) پوری زمین پر سفیان ثوری سے بڑا عالم کوئی نہیں جانتا۔‘‘ (حلیة الاولیاء : ٦/ ٣٥٧)
نیز فرماتے ہیں :
’’جس شخص کی بھی میرے سامنے تعریف کی گئی ہے، بوقت ملاقات میں نے اسے اس سے کم ہی پایا ہے سوائے سفیان ثوری کے ۔‘‘ (سیر أعلام النبلاء : ٧/ ٢٣٨)
ابن ابی ذئب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے سفیان ثوری رحمہ اللہ سے بڑھ کر تابعین سے مشابہت رکھنے والا کوئی نہیں دیکھا ۔ (أيضاً)
ابو بکر بن عیاش کہتے ہیں : ’’میں تو کسی بندے کو سفیان ثوری رحمہ اللہ کے ساتھ بیٹھا دیکھ لوں تو میری نظر میں اس کی قدر بھی بڑھ جاتی ہے۔‘‘ (حلية الأولياء : ١/ ٣٥٨)
معافی بن عمران رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالی نے سفیان ثوری کے ذریعے سے اہلِ اسلام پر احسان کیا ہے۔‘‘ (حلية الأولياء : ٦/ ٣٦٠)
سفیان ثوری رحمہ اللہ کو یہ مقام کیسے ملا، ان میں کیا خصائل تھے؟ آپ رحمہ اللہ کی سیرت پر غور کرنے سے اجمالا تین باتیں سمجھ آتی ہیں :
اولا؛ آپ عالم باعمل تھے، علم برائے معلومات نہیں رکھتے تھے بلکہ اس پر عمل بھی کرتے تھے، جیسا کہ مؤمل بیان کرتے ہیں :
’’میں نے سفیان رحمہ اللہ کی طرح اپنے علم پر عمل کرنے والا کوئی عالم نہیں دیکھا۔‘‘ (حلية الأولياء : ٦/ ٣٥٩)
ثانیاً : آپ علم میں اپنی طرف سے بلاوجہ رائے زنی کی بجائے کتاب وسنت اور جس قدر ہو سکے علمائے سلف پر اعتماد کرتے جیسا کہ ایوب بن سوید بیان کرتے ہیں :
’’ہم نے سفیان ثوری رحمہ اللہ سے جب بھی کسی چیز کے متعلق سوال کیا تو ہمیں ان کے پاس (قرآن و سنت سے) کوئی دلیل یا اپنے سے پہلے کسی عالم کا اثر ملتا۔‘‘ (حلیة الأولياء : ٦/ ٣٥٩)
ثالثاً : شکوک و شبہات سے بچ کر حلال و حرام میں خوب فرق کرنے والے تھے، امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’سفیان لوگوں پر علم اور ورع کی بدولت چھا گئے تھے۔‘‘ (سیر أعلام النبلاء : ٧/ ٢٣٨)
علم تو معلوم ورع کیا ہے؟ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بقول ہر اس چیز کو چھوڑ دینا جس کے متعلق خدشہ ہو کہ یہ آخرت میں میرے لیے باعثِ نقصان ہو گی ۔ (مدارج السالكين : ٢/ ١٢)
اور امام سفیان ثوری رحمہ اللہ صرف علم کی وجہ سے لوگوں پر فائق نہیں تھے بلکہ ان کے ورع کی کیفیت یہ تھی کہ خود ان سے مروی ہے : ’’میرے نزدیک تو ’’ورع‘‘ سے زیادہ آسان چیز ہی کوئی نہیں، مجھے جس چیز کے متعلق بھی (حلال وحرام کا) شک ہو جائے تو میں اسے چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ (الرسالة القشیریة : ١/ ٢٣٥)
یہ علماء ربانیین کے علم و عمل کی معراج تھی، اگر اُن لوگوں کے علم وعمل اور ورع کا کچھ حصہ بھی ہمارے دور کے علماء و طلباء کو میسر آ جائے تو یہ خیر و عافیت سے مالا مال ہو جائیں افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے دور کے طلباء انہی تین چیزوں میں لا پرواہ ہیں، علم پر عمل نہیں، علماء پر اعتماد کی بجائے اپنی ذاتی آراء و فہم کو دین بنا رکھا ہے اور زہد و ورع کی حالت کا تو کچھ نہ پوچھیں ۔ الله تعالی ہماری اصلاح فرمائے ۔ آمین ۔
(حافظ محمد طاھر)