بیٹیاں، جنت میں لے جانے کا ذریعہ

✿ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں :

﴿لِلہِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ﴾.

’’آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے جسے چاہے بیٹے دیتا ہے۔‘‘
(سورہ شوری : 49)
⇚ اسحاق بن بشر سے مروی ہے کہ :
’’یہ آیت در اصل انبیاء کے متعلق نازل ہوئی ہے اور اس کا حکم عمومی ہے، لوط علیہ السلام کی صرف بیٹیاں تھیں، کوئی بیٹا نہیں تھا، اس کے برعکس ابراہیم علیہ السلام کے صرف بیٹے تھے، بیٹی کوئی نہیں تھی، نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالی نے بیٹے اور بیٹیاں دونوں عطا کیے جبکہ یحیی بن زکریا علیہ السلام بے اولاد تھے۔‘‘
(تفسیر ابن عطیہ: 5/ 43)
⇚ عبید اللہ سعدی بیان کرتے ہیں، انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ اللہ تعالی بیٹیوں والے شخص کو پسند کرتے ہیں، لوط علیہ السلام بھی بیٹیوں والے تھے، شعیب علیہ السلام بھی بیٹیوں والے تھے اور نبی کریم ﷺ کی بھی بیٹیاں تھیں۔
(النفقۃ على العيال لابن أبي الدنيا : 95 ورجالہ ثقات)
⇚ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک عورت اپنی دو بچیوں کو لیے مانگتی ہوئی آئی۔ میرے پاس ایک کھجور کے سوا اس وقت اور کچھ نہ تھا میں نے وہی دے دی۔ وہ ایک کھجور اس نے اپنی دونوں بچیوں میں تقسیم کر دی اور خود نہیں کھائی۔ پھر وہ اٹھی اور چلی گئی۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حال بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جسے بیٹیاں دے کر کسی آزمائش میں ڈالا گیا تو وہ اس کے لیے دوزخ سے بچاؤ کے لیے آڑ بن جائیں گی۔‘‘
(صحیح بخاری : 1418، صحیح مسلم : 2629)
⇚ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
”جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا پھر دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کے حقوق کے سلسلے میں اللہ سے ڈرے تو اس کے لیے جنت ہے۔’’
(سنن ابی داود : 5147 ، سنن الترمذی : 1916 واللفظ لہ وسندہ حسن)
⇚ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’جس نے دو بیٹیوں کی ان کے بالغ ہو جانے تک پرورش کی، قیامت کے دن وہ اور میں اس طرح آئیں گے۔‘‘
(صحیح مسلم : 2631)
⇚ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ’’جس کے پاس تین بیٹیاں ہوں، وہ ان کے ہونے پر صبر کرے، ان کو اپنی کمائی سے کھلائے پلائے اور پہنائے، تو وہ بیٹیاں اس شخص کے لیے قیامت کے دن جہنم سے آڑ ہوں گی۔‘‘
(سنن ابن ماجہ : 2669 وسندہ صحیح)
⇚ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کی دوبیٹیاں جوان ہوجائیں اور وہ ان سے اس وقت تک اچھا سلوک کرتا رہے جب تک وہ اس کے ساتھ رہیں،یا جب تک وہ ان کے ساتھ رہے،وہ اسے جنت میں ضرور داخل کردیں گی۔‘‘
(سنن ابن ماجہ : 3670 وسندہ حسن)
⇚ امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’جسے اللہ تعالی ایک بیٹی عطا کریں اور وہ اس سے حسنِ سلوک کرے تو اللہ تعالی اسے جنت میں داخل کریں گے، جسے دو بیٹیاں دے کر آزمایا گیا اور وہ ان کی پرورش پر اجر کی امید رکھے تو وہ بیٹیاں اس کے لیے جہنم کی آگ سے ڈھال ہوں گی اور جسے تین بیٹیوں کے ذریعے آزمایا گیا تو سلف صالحین تو اس شخص پر جہاد و صدقہ لازمی نہیں سمجھتے تھے۔‘‘
(النفقۃ علی العیال لابن ابی الدنيا : 93 وسندہ صحیح)
⇚ کثیر بن عبید بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے رشتہ داروں میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو وہ یہ نہیں پوچھتی تھیں کہ لڑکا ہے یا لڑکی؟ بلکہ ان کا سوال ہوتا : کیا صحیح سلامت پیدا ہوا ہے؟ کہا جاتا جی ہاں ۔ تو آپ الحمد للہ رب العالمین پڑھتیں۔
(الأدب المفرد : 1256 و سندہ حسن)
⇚ امام احمد رحمہ اللہ کے بیٹے صالح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
’’جب بھی میرے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوتی تو والدِ محترم فرماتے : انبیاء علیہم السلام بھی بیٹیوں والے تھے اور بیٹیوں کے متعلق مروی روایات کو تو تم جانتے ہی ہو ۔‘‘
(سیرة الإمام أحمد لابنہ، ص : 41)
⇚ یعقوب بن بختان بیان کرتے ہیں کہ میری سات بیٹیاں پیدا ہوئیں، جب بھی بیٹی کی پیدائش کے بعد میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس جاتا تو فرماتے : اے ابو یوسف! انبیاء بھی بیٹیوں کے باپ ہوا کرتے تھے۔
(تحفۃ المودود لابن القيم ،ص : 26)
⇚ علامہ شہاب الدین آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’عالی ظرف لوگوں کا ہمیشہ سے یہی طریقہ رہا ہے کہ عورتوں کے دل کا خصوصی خیال رکھا جائے کیونکہ یہ نازک مزاج ہوتی ہیں، اسی لیے بندے کے لیے مستحسن ہے کہ جب وہ اپنے بچوں کو کچھ دینا چاہے تو پہلے بیٹیوں کو دے۔‘‘
(تفسیر روح المعانی: 4/ 279)
⇚ جعفر بن محمد الصادق رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے کہ
’’بیٹیاں نیکیاں ہوتی ہیں اور بیٹے نعمتیں ہوتے ہیں ۔ اور نیکیوں پر ثواب ملتا ہے جبکہ نعمتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا۔‘‘ (نثر الدر في المحاضرات للآبي : ١/‏٢٤٤)
⇚ وہب بن منبہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ
’’یہ عورت کی برکت ہوتی ہے کہ اس کے ہاں بیٹے سے پہلے بیٹی پیدا ہو، اللہ تعالی نے بھی بیٹیوں کا ذکر پہلے کیا چنانچہ فرمایا: وہ جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کر دیتا ہے۔‘‘ (محاضرات الأدباء للأصفهاني : ١/‏٣٩٦)
⇚ ’’بعض اہلِ لغت کہتے ہیں کہ عربی میں بیٹی کو ’’جَارِیہ‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ والد کے دل میں بیٹوں سے بھی جلدی جگہ بنا لیتی ہیں۔‘‘ (شرح الفصيح لابن هشام اللخمي، : ١٠٥)

حافظ محمد طاهر

یہ بھی پڑھیں: جوانی کی عبادت