انکارِ حدیث کے لیے مزعومہ معتدل طریقہ
بعض منکرینِ حدیث یا اُن سے متاثرین نے انوکھا انداز اَپنا رکھا ہے کہ کسی بھی حدیث کا من چاہا مفہوم بیان کیا، پھر اس کے انکار میں جُت گئے ۔ اور اپنی اس حرکتِ مذمومہ کو معتدلانہ رائے بنا کر پیش کرنے کے لیے جذباتی کلامی جوڑ توڑ اور کھوکھلے عقلی معیارات وضع کر لیے تاکہ نفسِ عقلانی کو تسکین بخشی جا سکے ۔
کچھ معاصر عقل پرستوں کے جانب سے حدیث کذباتِ ثلاثہ کو بھی اسی طرح تختۂ مشق بنانے کی کوشش نامسعود کی گئی ہے ۔ سب سے زیادہ دہرایا جانے والا جملہ کہ “راوی غیر معصوم ہے اور نبی کی عصمت مسلمات میں سے ہے لہذا نبی پر الزام کے بجائے راوی کا وہم مان لینا چاہیے۔” ایسا بے بنیاد اور غیر منطقی جذباتی فقرہ ہے کہ علمِ حدیث کی ابجدیات کا طالب علم بھی اس کی سطحیت سے واقف ہے، کیوں کہ راوی کے وہم کی بات تب ہوتی جب اس حدیث کو روایت کرنے میں طبقۂ صحابہ کے علاوہ نیچے کوئی متفرد ہوتا جو کہ یہاں بالکل بھی نہیں۔
اس حدیث کی صرف کتب ستہ میں تفصیل یوں ہے کہ
رسول اللہ ﷺ سے اس حدیث کو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسے طبقہ تابعین میں امام محمد بن سیرین، ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف اور عبد الرحمن بن ہرمز اعرج بیان کرتے ہیں ۔
محمد بن سیرین سے آگے اسے عظیم محدث امام ایوب سختیانی اور ہشام بن حسان بیان کرتے ہیں ۔
عبد الرحمن بن ہرمز اعرج کی طرف آئیں تو ان سے دو راوی ابو الزناد عبد اللہ بن ذکوان اور شعیب بن ابی حمزہ اسے بیان کرتے ہیں ۔
ایوب سختیانی سے اسے جریر بن حازم اور حماد بن زید بیان کرتے ہیں ۔
یعنی یہ ایسا سلسلہ ہے کہ اس میں الزامِ وہم اگر کسی ایک راوی پر تھوپنا ہے تو صرف سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بچتے ہیں اور اگر ایک سے راویوں کو موردِ الزام ٹھہرانا ہے تو کوئی حد نہیں بلا دلیل و اثبات سب کو اُڑا دیجیے ۔
یہ صرف کتب ستہ کی روشنی میں سند کے اعتبار سے اس نظریے کا کھوکھلا پن ظاہر ہے جو کسی راوی کے سر وہم لگانے پر زور لگاتا ہے ۔
دوسرا راستہ نسبتا آسان اور واضح ہے کہ وہ تمام کتبِ احادیث مشکوک قرار دے دی جائیں جن جن میں یہ روایت ان اسانید سے آئی، اس کا کم از کم یہ فائدہ ہو گا کہ اپنا مکمل دین مشکوک بنا کر بہت سی چیزوں سے آزاد ہو جائیں گے۔
رہا متن تو اگر متن کے اعتبار سے اس حدیث کو دیکھا جائے تو اس میں کسی قسم کی کوئی خامی نظر نہیں آتی۔
ہر باطل فرقے کا انداز یہی ہوتا ہے کہ پہلے نصوصِ شرعیہ کا غلط تشریحی انداز اپنایا جائے اور پھر ان کا انکار کر دیا جائے ۔
منکرینِ صفات کو دیکھیں تو انہوں نے صفات باری تعالی کے متعلق وارد نصوص کے پہلے غلط معانی بیان کر کے صفاتِ الہی کو انسانی صفات سے تشبیہ دی، پھر کہا اللہ تعالی تو اس سے منزہ ہیں بھلا اس کی یہ یہ صفات کیسے ہو سکتی ہیں، اس لیے اللہ تعالی کی ذات کو طعن سے بچانے کے لیے اب ان نصوص کا انکار کر دو حالانکہ اہل السنہ کے ہاں نصوص کی تشریح ہی مشبہہ کے طرز پر نہیں ہوتی کہ آگے جا کر ان کا انکار کرنا پڑے۔
یہی طریقہ عقل پرست منکرینِ حدیث کا ہے کہ انہوں نے پہلے اس حدیث کا غلط معنی سمجھا، انہیں پوری لغتِ عرب اور نصوصِ شرعیہ کی روشنی میں انہیں “کذب” کا مطلب صرف جھوٹ ہی نظر آیا اس لیے پہلے جھوٹ کا الزام نبی پر لگایا گیا اور اس کے بعد یک جنبش راوی کا وہم بنا کر انکار کر دیا ۔
وہی حدیث جسے محدثین فضائل ابراہیم کے باب میں بیان کرتے تھے، صدیوں بعد کی دریافت سے انہیں معلوم ہوا کہ یہ تو نبی کی شان میں گستاخی کا باعث بن رہی ہے ۔
مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے متعلق معاصر عقل پرستوں کا بہترین رد کیا ہے، فرماتے ہیں؛
معاریض ابراہیم علیہ السلام کی روایت اکثر کتب حدیث میں مروی ہے اس کی سند اصولِ محدثین کے مطابق صحیح ہے، ائمہ حدیث سے فنی طور پر کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا ۔
الف۔ تعجب ہے ائمہ حدیث میں سے یہ حدیث نہ کسی کی طبیعت کو کھٹکی نہ ان کی “عقلِ عام” نے اس سے اَباء کیا۔
(ب) متقدمین فقہاء سنت سے بھی کسی نے اس پر اشتباہ کا اظہار نہیں کیا، غالبا امام رازی پہلے آدمی ہیں جن کے مزاج پر یہ حدیث گراں گزری اور انہوں نے دبے لفظوں میں اس کے انکار کی کوشش کی لیکن امام نے اس چیز پر غور نہیں فرمایا کہ ان رواۃ سے اور بھی بہت سی روایات مروی ہیں، بنا بریں جس عیب کی بنا پر اسے رد کیا جائے گا اس کا اثر باقی احادیث پر بھی پڑے گا اس لیے یہ رد نتائج کے لحاظ سے آسان نہیں۔
(ج) ابن قتیبہ (276ھ) نے ابراہیم بن سیار نظام جیسے معتزلی کے شبہات کا ذکر کیا ہے۔ نظام کہتے ہیں کہ اکابر صحابہ نے (حذیفہ بن یمان) حضرت عثمان کے پاس جھوٹ بولا۔ ابن قتیبہ فرماتے ہیں کہ تعریض توریہ ہے اور بعض اوقات جھوٹ کی بھی اجازت ہے۔ اس ضمن میں الزام کے طور پر انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کی معاریض کا ذکر فرمایا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نظام ایسے غالب معتزلی کو بھی اس وقت اس حدیث پر اعتراض نہ تھا نہ ہی یہ اس کی عقل کو کھٹکتی تھی۔ معتزلہ اور متکلمین عقل کی پرستش اصول اور قواعد کے مسائل میں کرتے تھے اور صفات باری کے مباحث میں سنت ان کی عقول پر گراں گزرتی تھی مگر فروع میں ان کی عقلوں سے اس احساس کا دباؤ کم ہو جاتا ہے ان کا خیال تھا کہ یہ مسائل بھی ظنی ہیں ان پر ظنی دلائل سے استدلال صحیح ہے۔ آج کے عقل پرست حضرات نہ اصول میں حدیث کو معاف کرتے ہیں نہ فروع میں۔ عقول پر یہ اَباء یا کھٹکا در اصل موسم کی بات ہے۔
(د) فقہائے حدیث اور ائمہ اور شرّاح حدیث اس امر پر قریبا متفق ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹ نہیں بولا قران و سنت صراحتا اس پر شاہد ہیں کہ یہ جو کچھ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تعریض اور توریہ کے طور پر فرمایا اور یہ طریقہ گفتگو ادبیات کی جان ہے۔ دینی، سیاسی، کاروباری طبقے سب اس کا کھلے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے جس اختصار اور سنجیدگی سے اس کا تذکرہ فرمایا ہے اہلِ تحقیق کے لیے اس میں تسکین کا سامان موجود ہے…امام کا مطلب یہ ہے کہ سچ اور جھوٹ کی تشخیص میں نفس الامر اور متکلم کے قصد اور ارادہ کو بھی دخل ہے اس لحاظ سے اس کی تین صورتیں ہوں گی: متکلم صحیح اور واقعے کے مطابق کہے اور مخاطب کو وہی سمجھانا چاہے جو فی الحقیقت ہے یہ دونوں لحاظ واقعہ اور ارادہ سے سچ ہے۔ اور اگر متکلم خلاف واقعہ کہے اور مخاطب کو اپنے مقصد سے آگاہ نہ کرنا چاہے بلکہ ایک تیسری صورت پیدا کر دے جو نہ صحیح ہو، نہ ہی متکلم کا مطلب اور مراد ہو یہ دونوں لحاظ سے جھوٹ ہوگا۔ لیکن اگر متکلم صحیح اور نفس الامر کے مطابق گفتگو کرے لیکن مخاطب کو اندھیرے میں رکھنا چاہے اور اپنے مقصد کو اس پر ظاہر نہ ہونے دے اسے تعریض اور توریہ کہا جاتا ہے یہ متکلم کے لحاظ سے صدق ہے اور تفہیم کے لحاظ سے کذب ہے۔ اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے کذب سے تعبیر کیا دراں حالیکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو کچھ فرمایا وہ حقیقت میں صحیح تھا شناعتِ عامہ سے بچنے کے لیے یہی مناسب طریق تھا۔ (حجیت حدیث : 129 تا 132)
حافظ محمد طاهر