ظالم حکمران کی اقتداء میں نماز

1. عبید اللہ بن عدی بن خیار بیان کرتے ہیں کہ جب سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ محصور تھے وہ اُن کے پاس گئے۔ عرض کیا کہ آپ ہی عام مسلمانوں کے امام ہیں مگر آپ پر جو مصیبت ہے وہ آپ کو معلوم ہے۔ ان حالات میں باغیوں کا مقررہ امام نماز پڑھا رہا ہے۔ ہم اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے جھجھکتے ہیں۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

اَلصَّلَاةُ أَحْسَنُ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ، فَإِذَا أَحْسَنَ النَّاسُ فَأَحْسِنْ مَعَهُمْ، وَإِذَا أَسَاءُوا فَاجْتَنِبْ إِسَاءَتَهُمْ.

’’لوگ کے اعمال میں سب سے بہترین عمل تو یہی نماز ہے ۔ تو وہ جب اچھا کام کریں تم بھی اس کے ساتھ مل کر اچھا کام کرو اور جب وہ برا کام کریں تو تم ان کی برائی سے الگ رہو۔‘‘ (صحیح بخاري : ٦٩٥)
2. عمیر بن ہانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :

شهدت ابن عمر والحجاج محاصر ابن الزبير فكان منزل ابن عمر بينهما فكان ربما حضر الصلاة مع هؤلاء وربما حضر الصلاة مع هؤلاء.

’’جب حجاج بن یوسف نے سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کر رکھا تھا، میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا، اُن کا پڑاؤ دونوں لشکروں کے درمیان تھا تو وہ کبھی اِس لشکر کے ساتھ نماز ادا کر لیتے اور کبھی اُس لشکر کے ساتھ ادا کر لیتے۔‘‘ (مصنف ابن أبي شيبة : ٧٥٥٩ وسنده صحیح)
3. زید بن اسلم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :

أن ابن عمر كان في زمان الفتنة لا يأتي أمير إلا صلى خلفه وأدى إليه زكاة ماله.

’’زمانۂ فتنہ میں جو بھی امیر مقرر ہو کر آتا، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس کی اقتداء میں نماز ادا کرتے اور اپنے مال کی زکوٰۃ اسی کے سپرد کرتے تھے۔‘‘ (الطبقات الكبرى لابن سعد : ٤/ ١٤٩ وسنده صحیح)
اسی طرح علماء نے صحیح بخاری (١٦٦٠) سے بھی سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا حجاج کی اقتداء میں نماز پڑھنا ثابت کیا ہے۔
4. جعفر بن برقان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، میں نے میمون بن مہران رحمہ اللہ سے ایک آدمی کے متعلق پوچھا اور اُن سے ذکر کیا کہ وہ خوارج میں سے ہے ۔ فرمانے لگے :

«أنت لا تصلي له إنما تصلي لله، قد كنا نصلي خلف الحجاج، وكان حروريا أزرقيا».

’’آپ اُس کے لیے نماز نہیں پڑھتے بلکہ اللہ تعالی کے لیے نماز ادا کرتے ہیں، ہم تو خود حجاج کے پیچھے نماز ادا کر لیا کرتے تھے جبکہ وہ حروری، اَزرقی تھا۔‘‘ (مصنف ابن أبي شيبة : ٧٥٦٥ وسنده صحیح)
ایک روایت میں اضافہ ہے : میں نے اُن کی طرف دیکھا تو فرمانے لگے :

«أتَدرون ما الحروريُّ الأزرَقي؟ هو الذي خالفت رأيه سماك كافرا، واستحل دمك، وكان الحجاج كذلك».

’’کیا تمہیں پتا ہے کہ حروری ازرقی کون ہوتا ہے؟ یہ وہ شخص ہوتا ہے کہ اگر آپ اس کی رائے سے اختلاف کریں تو آپ کو کافر کہہ کر آپ کے قتل کو حلال سمجھے، اور حجاج ایسا ہی تھا ۔‘‘ (مسائل حرب الكرماني : ١١٣١ وسنده حسن)
نوٹ : حجاج بن یوسف ظالم وفاسق شخص تھا۔ اس پر علماء کا اجماع ہے ۔ (شرح صحيح مسلم للنووي : ١٦/ ١٠٠) نیز سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے حجاج کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے علماء و محدثین اور فقہائے امت کی کثیر تعداد نے ظالم وفاسق کی امامت پر استدلال کیا ہے، یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اسے ظالم وفاسق سمجھتے تھے ۔
5. محمد بن علی بن الحسین رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
كانا يصليان خلف مروان.
’’سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ عنہما دونوں مروان بن الحکم کی اقتداء میں نماز ادا کر لیا کرتے تھے۔‘‘
کہا گیا کہ کیا وہ گھر واپس آ کر دوبارہ نماز نہیں پڑھتے تھے؟ فرمایا : ’’اللہ کی قسم! وہ نماز انہی کے ساتھ ادا کرتے تھے اور ائمہ کے ساتھ ادا کی گئی نماز پر کوئی اضافہ نہیں کرتے تھے۔‘‘ (الأم للشافعي : ١/ ٧١٥ ومسنده : ٢/ ٨٩)
یہ روایات امام محمد بن علی الباقر رحمہ اللہ سے صحیح ثابت ہیں، لیکن ان کا سیدنا حسن و حسين رضی اللہ عنہما سے سماع نہیں، البتہ بطورِ تائید و استئناس یہ روایت قوی ہے۔
اس کا ایک شاہد بھی ہے۔ (الطبقات الكبرى – ط الخانجي ٦/‏٣٧٢، التاريخ الأوسط للبخاري : ٤٥٩)
6. اسی طرح بسام بن عبد اللہ صیرفی بیان کرتے ہیں، میں نے امام ابو جعفر محمد باقر رحمہ اللہ سے بنو امیہ کے امراء کی اقتداء میں نماز کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا :
صل خلفهم فإنا نصلي خلفهم.
’’ان کے پیچھے نماز پڑھ لو، ہم بھی ان کی اقتداء میں نماز ادا کرتے ہیں۔‘‘ (الطبقات الكبرى، متمم الصحابة : ٣٨٢، مصنف ابن أبي شيبة : ٧٦٥٠ وسنده صحیح)
ابراہیم نخعی تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

كان عبد الله يصلي معهم إذا أخروا عن الوقت قليلا ويرى أن مأثم ذلك عليهم.

’’سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ائمہ کے ساتھ نماز ادا کرتے چاہے وہ وقت سے کچھ تاخیر بھی کر دیتے اور وہ سمجھتے تھے کہ اس کا گناہ انہی کے ذمے ہے۔‘‘ (مصنف ابن أبي شيبة : ٥٧٦٦ ورجاله ثقات)
7. عبد الکریم البکاء بیان کرتے ہیں :
أدركت عشرة من أصحاب النبي ﷺ، كلهم يصلون خلف أئمة الجور.
’’میں نے دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پایا ہے وہ سب کے سب ظالم ائمہ کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے۔‘‘ (التاريخ الکبیر للبخاري : ١٨٠٠)
8. علامہ شوکانی رحمہ اللہ (١٢٥٠هـ) فرماتے ہیں :

قد ثبت إجماع أهل العصر الأول من بقية الصحابة ومن معهم من التابعين إجماعا فعليا، ولا يبعد أن يكون قوليا، على الصلاة خلف الجائرين؛ لأن الأمراء في تلك الأعصار كانوا أئمة الصلوات الخمس.

’’ظالموں کی اقتداء میں نماز پر عصر اول سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اُن کے ساتھ تابعین کا عملی اجماع ثابت ہے، بلکہ کچھ بعید نہیں کہ ظالموں کی اقتداء میں نماز پر قولی اجماع ہو۔ کیوں کہ اُن اَدوار میں امراء ہی پانچوں نمازوں کے امام ہوا کرتے تھے۔‘‘ (نيل الأوطار : ٣/ ١٩٤)

حافظ محمد طاهر

یہ بھی پڑھیں: تمہارا رزق آسمانوں میں ہے۔