“اسلام میں بوسہ دینے کی شرعی حیثیت”
اسلام میں اخلاق و آداب کی بڑی اہمیت ہے۔ بڑوں کا احترام اور علماء کرام کی توقیر دین کا حصہ ہے، مگر اس کے دائرے میں افراط و تفریط سے گریز لازم ہے۔ کچھ لوگ محبت اور تعظیم کے نام پر ایسے افعال کر بیٹھتے ہیں جو غلو یا بدعت کے زمرے میں آ جاتے ہیں۔ انہی میں ایک عمل جھک کر کسی کے ہاتھ کا بوسہ دینا ہے، جو بسا اوقات تعظیم میں غلو، عاجزی میں مبالغہ یا تواضع کے نام پر غیر مشروع عمل بن جاتا ہے۔
❖ ہاتھ چومنے کا شرعی حکم:
اولاً: نبی کریم ﷺ سے اس عمل کا ثبوت
بعض روایات سے ہاتھ چومنے کی اجازت ملتی ہے، جیسے:
عن ابن عمر قال: فقبلنا يد النبي ﷺ(جامع الترمذی، 2732، بسند صحیح)
ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھما کہتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم ﷺ کے ہاتھ کا بوسہ لیا۔
صحابہ کرام کا یہ عمل محبت کے اظہار اور عقیدت کی اعلیٰ مثال تھا، اس میں نہ جھکاؤ تھا، نہ رسمی و عادتاً بوسہ
❖ جھک کر بوسہ دینا قابلِ مذمت کیوں؟
تشبّہ بالکفار و متکبرین:
جھک کر بوسہ دینا غیر مسلم بادشاہوں اور پادریوں کے ہاں تعظیم کا انداز رہا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“من تشبّه بقوم فهو منهم”(أبو داود: 4031)
ترجمہ: جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے۔
غلو اور عبادت کی مشابہت:
کسی کے سامنے جھکنا خواہ کسی درجہ میں ہو، عبادت یا تعظیم میں غلو شمار ہو سکتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کو سجدہ تعظیمی سے منع فرمایا، حالانکہ وہ خلوص سے کرنا چاہتے تھے۔
آپﷺ نے تو یہاں تک فرمایا دیا کہ:
“لو كنت آمراً أحداً أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها” (جامع الترمذی: 1159)
علماء سلف کا مؤقف:
● شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
“وأما تقبيل اليد فلا يجوز على وجه التذلل كما يفعل أهل الذمة وأهل التصوف لبعضهم.”(مجموع الفتاویٰ: 1/377)
ترجمہ: ہاتھ چومنا اگر ذلت اور جھکاؤ کے ساتھ ہو جیسے اہلِ ذمّہ یا بعض صوفیاء کرتے ہیں، تو جائز نہیں۔
قال النووي رحمه الله:
“وأما تقبيل اليد فإن كان لزهده وصلاحه أو علمه أو شرفه وصيانته، فمستحب، وإن كان لغناه أو جاهه أو سلطانه فمكروه.”(شرح صحیح لمسلم، کتاب السلام)
ترجمہ: اگر کسی کے زہد، تقویٰ، علم یا پرہیزگاری کی بنیاد پر ہاتھ چوما جائے تو مستحب ہے، اور اگر مال، دنیاوی عزت یا حکومت کی وجہ سے ہو تو مکروہ ہے۔
اشارہ: امام نووی نے شرط لگائی کہ وہ تعظیم علم یا زہد کی بنیاد پر ہو، اور اس میں جھکاؤ یا ذلت نہ ہو۔
قال الذهبي في ترجمة بعض العلماء:
“وكان لا يرضى أن يُقبل يده، ويقول: هذه عادة لا تجوز، وهي من تعظيم الخلق.”(سیر أعلام النبلاء، 15/89)
ترجمہ: وہ (عالم) یہ پسند نہ کرتے کہ ان کا ہاتھ چوما جائے، اور فرماتے: یہ عادت جائز نہیں، یہ مخلوق کی تعظیم میں غلو ہے۔
قال البيهقي:
“تقبيل اليد والرجل إن كان على وجه التذلل والتعظيم كهيئة الركوع فلا يجوز.”(شعب الإيمان، 6/457)
ترجمہ: ہاتھ یا پاؤں چومنا اگر تذلل و تعظیم کی شکل میں ہو، جیسے رکوع کی حالت، تو یہ جائز نہیں۔
❖ جماعت اہل حدیث کا منہج:
جماعت اہل حدیث کا بنیادی اصول ہے کہ ہر عمل قرآن و سنت کے مطابق ہو اور صحابہ کرامؓ و سلف صالحین کے منہج پر مبنی ہو۔
از قلمِ یاسر مسعود بھٹی
خادمُ العلم والعلماء
یہ بھی پڑھیں:دل کو پاک رکھنے کے دس اصول