سوال (843)

اسلام میں موسیقی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

گانا سننا ایک حرام عمل ہے ،جس کی حرمت پر بے شمار دلائل پائے جاتے ہیں، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

“ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله ” (لقمان: 6 )

اور لوگوں ميں كچھ ايسے بھى ہيں جو لغو باتيں خريدتے ہيں، تا كہ بغير كسى علم كے اللہ كى راہ سے لوگوں كو روكيں، اور اسے مذاق بنائيں، انہيں لوگوں كے ليے ذلت ناک عذاب ہے ۔
ابن عباس رضى اللہ تعالى اور مجاہد اس آیت كى تفسير ميں كہتے ہيں کہ اس سے مراد گانا بجانا ہے. (تفسير الطبرى: 3 / 451 )
شیخ عبد الرحمن السعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
’ اس ميں ہر حرام كلام، اور سب لغو اور باطل باتيں، بكواس اور كفر و نافرمانى كى طرف رغبت دلانے والى بات چيت، اور راہ حق سے روكنے والوں اور باطل دلائل كے ساتھ حق كے خلاف جھگڑنے والوں كى كلام، اور ہر قسم كى غيبت و چغلى، اور سب و شتم، اور جھوٹ و كذب بيانى، اور گانا بجانا، اور شيطانى آواز موسيقى، اور فضول اور لغو قسم كے واقعات و مناظرات جن ميں نہ تو دينى اور نہ ہى دنياوى فائدہ ہو سب شامل ہيں‘۔[ تفسير السعدى 6 / 150]
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
” لھو الحديث ” كى صحابہ كرام رض اور تابعين عظام نے تفسير يہى كى ہے كہ يہ گانا بجانا ہے۔ كيونكہ يہ زنا كا زينہ اور پيش خيمہ ہے، اور اس سے نفاق و شرک پيدا ہوتا ہے، اور شيطان كى شراكت ہوتى ہے، اور عقل ميں خمار پيدا ہو جاتا ہے، اور گانا بجانا ايک ايسى چيز ہے جو قرآن مجيد سے روكنے اور منع كرنے والى باطل قسم كى باتوں ميں سب سے زيادہ شديد روكنے والى ہے، كيونكہ اس كى جانب نفس بہت زيادہ ميلان ركھتا ہے، اور اس كى رغبت كرتا ہے‘۔ ديكھيں: اغاثۃ اللھفان ( 1 / 258 – 259 ).
نافع رحمہ اللہ بيان كرتےہيں :
” ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے بانسرى بجنے كى آواز سنى تو انہوں نے اپنے كانوں ميں انگلياں ركھ ليں اور راستے سے ہٹ كر مجھے كہنے لگے نافع كيا تم كچھ سن رہے ہو ؟ تو ميں نے عرض كيا: نہيں، تو انہوں نے اپنے كانوں سے انگلياں نكال ليں، اور كہنے لگے، ميں ايک بار نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ تھا تو انہوں نے آواز سنى تو اسى طرح كيا ” (صحيح سنن ابو داود)
كچھ لوگ سمجھتے ہيں كہ يہ حديث اس كى حرمت كى دليل نہيں كيونكہ اگر ايسا ہى ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كو اپنے كان بند كرنے كا حكم ديتے، اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بھى اسى طرح نافع كو حكم ديتے!
تو اس كا جواب يہ ديا جاتا ہے كہ: وہ اسے غور سے كان لگا كر نہيں سن رہے تھے بلكہ اس كى آواز ان كے كان ميں پڑ گئى تھى۔ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہيں:
” مستمع وہ ہے جو قصدا اور ارادتا سنتا ہے، اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے ايسا نہيں پايا گيا، بلكہ ان سے سماع پايا گيا ہے، يعنى بغير كسى ارادہ قصد كے آواز كان ميں پڑ گئى۔[ المغنى ابن قدامہ 10 / 173 ]

فضیلۃ العالم سید کلیم حسین حفظہ اللہ