“اسلام میں سالگرہ کی شرعی حیثیت”
اسلام ایک کامل، جامع اور دین الٰہی ہے جسے نبی کریم ﷺ کے ذریعے مکمل کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے خود اعلان فرمایا:
ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ (المائدہ: 3)
یہ دین نہ صرف مکمل ہے بلکہ اس میں کسی قسم کی کمی بیشی یا نئی ایجاد (بدعت) کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔
ہر سال بعض لوگ “اسلام کی سالگرہ”، یا “یومِ آغازِ اسلام” کے نام سے کوئی تقریب یا دن منانے کی بات کرتے ہیں۔
اہل حدیث کا بنیادی اصول:
دین صرف قرآن و سنت
اہل حدیث علماء کرام ہمیشہ سے اس بات کے قائل ہیں کہ دین صرف اور صرف قرآن و سنت سے ثابت ہوتا ہے۔ جو بات قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو، اسے دین بنانا “بدعت” کہلاتی ہے، اور بدعت دین میں زیادتی ہے، جس کا سختی سے انکار کیا گیا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردّ۔ (صحیح البخاری، الصحیح لمسلم)
“جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے، وہ مردود ہے۔”
اسلام میں سالگرہ کا تصور – بدعت یا سنت؟
اسلام میں کسی قسم کی کبھی سالگرہ نبی کریم ﷺ نے منائی، نہ صحابہ کرام نے، نہ خلفائے راشدین نے، نہ تابعین و تبع تابعین نے۔ یہ ایک حالیہ دور کا تصور ہے جو شاید مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر بعض ذہنوں میں آیا ہے، جہاں ہر چیز کی “سالگرہ” منانا رواج بن چکا ہے۔
اہل حدیث علماء کی رائے کی بنیادیں:
1. عدم ثبوت:
اسلام کے ابتدائی دور میں نہ تو ہجرت کے دن کی سالگرہ منائی گئی، نہ بعثت کا دن منایا گیا، نہ بدر، نہ فتح مکہ، نہ ہی نزولِ قرآن کا آغاز۔ اگر یہ کوئی دینی عمل ہوتا تو صحابہ کرام لازماً اسے کرتے۔
2. تشبہ بالکفار:
نبی ﷺ نے فرمایا:
من تشبّه بقومٍ فهو منهم۔ (سنن ابی داؤد: 4031)
“جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے، وہ انہی میں سے ہے۔”
سالگرہ منانا یہود و نصاریٰ اور مشرک اقوام کی رسم ہے، جسے اہل حدیث بدعت و تشبہ کی وجہ سے حرام سمجھتے ہیں۔
3. بنیادی مقصد فراموشی:
دین کا مقصد سالگرہ یا مخصوص دن نہیں، بلکہ ہر دن دین کی اتباع اور اطاعت ہے۔ اسلام کا پیغام وقت و مقام کا محتاج نہیں۔
اہل حدیث علماء کرام کے فتاویٰ اور اقوال
1.شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ:
“دین میں ایسی کوئی سالگرہ نہ نبی کریم سے ثابت ہے، نہ خلفائے راشدین سے۔ جو چیز دین کا حصہ نہ تھی، وہ بعد میں دین بنائی جائے تو بدعت ہے۔”
2. شیخ ابن باز رحمہ اللہ:
“اسلام یا نبی کریم ﷺ کی بعثت کی سالگرہ منانا، عید میلادالنبی کی طرح بدعت ہے۔ اگر یہ عمل خیر ہوتا تو سب سے پہلے صحابہ کرام کرتے۔”
3. شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ:
“اسلام کی سالگرہ منانا نہ صرف بدعت ہے بلکہ یہ اسلام جیسے عظیم دین کی توہین ہے، گویا وہ ایک وقتی اور تہذیبی تحریک تھی۔”
اسلامی تہواروں کی حدود:
اسلام میں صرف دو عیدیں (عید الفطر اور عید الاضحیٰ) مشروع ہیں۔ ان کے علاوہ کوئی دن بطور “عید” یا “یادگار” منانا شریعت کے خلاف ہے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
قد أبدلكم الله بهما خيراً منهما: يوم الفطر، ويوم الأضحى۔ (سنن ابی داؤد: 1134)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دو دنوں کے بدلے (جو زمانۂ جاہلیت میں خوشی کے دن ہوتے تھے) دو بہتر دن عطا فرما دیے ہیں: عید الفطر اور عید الاضحیٰ
یاد رکھیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جس میں کسی اضافے یا کمی کی گنجائش نہیں۔ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کا طرزِ عمل ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ دین میں نئی رسومات شامل کرنا، خواہ وہ نیک نیتی سے ہی کیوں نہ ہوں، دراصل اس کامل دین پر عدم اعتماد کا اعلان ہے۔ “اسلام میں سالگرہ” جیسے تصورات شریعت سے ماوراء اور محض تہذیبی اثرات کی پیداوار ہیں۔
اہلِ حدیث کا مؤقف قرآن و سنت کی روشنی میں دو ٹوک، واضح اور محفوظ ہے:
دین وہی ہے جو نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے، اور جو ثابت نہیں وہ دین نہیں۔
لہٰذا، لازم ہے کہ ہم اپنے جذبات کو قرآن و سنت کی رہنمائی کے تابع رکھیں، نہ کہ زمانے کی تقلید اور تہذیبی دباؤ کے۔ اسلام کی عظمت اس میں نہیں کہ ہم اس کی سالگرہ منائیں، بلکہ اس میں ہے کہ ہم روزمرہ کی زندگی میں اس کے احکام کو غالب کریں۔
“وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ ٱلْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ ٱلْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِۦ جَهَنَّمَ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيرٗا” (النساء: 115)
اللہ تعالیٰ ہمیں سلف صالحین کے منہج پر چلنے کی توفیق دے، اور ہر بدعت سے محفوظ فرمائے۔
آمین یارب العالمـــین
یاسر مسعود بھٹی
خادمُ العلم والعلماء