اسلامی نظام معیشت سے متعلق اہم نقاط

گزشتہ دنوں ایک جگہ اسلام کے نظام معیشت کے بنیادی خدوخال و امتیازی خصائص پر ایک لیکچر دیا اس کے اہم نقاط درج ذیل ہیں۔

اسلام دیگر ادیان کے مقابلے میں واحد دین ہے جس نے عبادات کے ساتھ معاملات میں بھی متوازن تعلیمات اپنے ماننے والوں کو عطا کی ہیں۔ جس میں افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اعتدال و مالی حقوق و فرائض کے مابین جامع توازن قائم کر دکھایا۔

اسلام کے نظریہ معیشت کی بنیاد دو امور پر ہے :
مال کہاں سے حاصل کیا اور کہاں خرچ کیا

ان دونوں امور کے مابین توازن قائم کرنا ہی کامیاب معیشت و اقتصاد ہے ملکی سطح پر سالانہ میزانیہ بنایا جاتا ہے جس میں آمدنی اور اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے مالی امور ترتیب دیے جاتے ہیں اسی طرح ایک عام فرد بھی اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی مالی امور ترتیب دیتا ہے ۔
مال کا حصول اور خرچ کرنے کے حوالے سے اسلام نے چند اصول وضع کیے ہیں جن کا ذکر اختصار کے ساتھ درج کیا جاتا ہے :
) اپنے اخراجات کو آمدنی سے کم ہی رکھا جائے اور یہی اسلام کے نظریہ معیشت کی اخلاقی بنیاد ہےکیونکہ اسی قاعدہ کی وجہ سے اسراف و تبذیر کو حرام قرار دیا گیا بلکہ بخل جیسے قبیح کیفیت کی ممانعت بھی اسی قاعدے کے تحت بیان کی جا سکتی ہے۔
) اسلام کے نظام معیشت اور دیگر نظامہائے معیشت کا اصولی فرق “قرض “کا اصول ہے کیونکہ اسلام قرض پر مبنی مالیاتی معاملات کو سخت ناپسند کرتا ہے گو کہ اضطراری حالات میں قرض کی اجازت دی گئی ہے لیکن یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سے زائد مرتبہ قرض سے بچنے کی تاکید کی کہیں دعا کی صورت میں تو کہیں نماز جنازہ سے قبل میت کی طرف سے قرض کی ادائیگی کی شکل میں ۔جبکہ نظامہائے معیشت میں مالیاتی ادارے قرض کی بنیاد پر ہی قائم کیے جاتے ہیں اور مغربی نظام معیشت میں قرض اضطراری کیفیت میں نہیں بلکہ بنیادی اختیار کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے بلکہ تعیشات کے لیے بھی قرض کی ترغیب دی جاتی ہے۔
) اسلام میں مال کے حصول اور مال کے خرچ کرنے کا اقتصادی پہلو یہ ہے کہ اس میں دولت چند ہاتھوں میں مرتکز نہیں ہوتی بلکہ دولت گردش میں رہتی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ میں مالی بنیادوں پر طبقاتی تقسیم سامنے نہیں آتی۔
) ہر دو کیفیات میں اسلام تقسیم دولت کے منصفانہ حل کی طرف توجہ دلاتا ہے اور تقسیم دولت کے فطری اور منصفانہ حل جیسا کہ تجارت، وراثت، زکوۃ، صدقات اور کفالت جیسے سنہری اور زریں اصول بیان کیے۔اس کے نتیجےمیں ارتکاز دولت جیسی ناپسندیدہ کیفیت معاشرہ میں نظر نہیں آتی۔
5) اگر مالیاتی معاملات سے اخلاقی تعلیمات کو نکال دیا جائے تو یہ محض مادیت پرستانہ افکار کا مجموعہ بن جاتا ہے اور اس کے مظاہر اشتراکیت، کمیونزم، سرمایہ دارانہ نظام کی صورت میں دنیا دیکھ ہی چکی ہے کہ کس طرح معاشرہ میں مالی طبقاتی فرق بڑھتا جا رہا ہے اور دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوتی جا رہی ہے ۔اور یہ دنیا داری برائے دنیاداری ہے جبکہ اسلام ہمیں دنیا کے حصول سے روکتا نہیں لیکن دنیا برائے آخرت کی طرف ترغیب دیتا ہے ۔جس میں مال ایک نعمت الہی ہے اور ہر نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا لہذا نعمت کے ممکنہ حقوق سے آگاہی اور ان کی ادائیگی ہی حقیقی کامیابی و فوز کی ضامن ہے۔”
6) اسلام کے نظام معیشت کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ اسے عقیدہ آخرت کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دنیا برائے دنیا نہیں بلکہ دنیا برائے آخرت اصل ھدف بن جاتی ہے۔ اگر معیشت سے آخرت کو نکال دیا جائے تو پھر ھوس، غصب، دھوکہ دہی، فراڈ ، جھوٹ ہی نظام معیشت کی پہچان بن جاتے ہیں ۔

شاہ فیض الابرار صدیقی

یہ بھی پڑھیں: قران مجید : کتاب ھدایت