مادہ پرست معاشرے کی پریشانی یہ ہے کہ یہاں عزت بھی آپ کو پیسوں سے کمانی پڑتی ہے، یہاں علم، شرافت ، تقوی، تدین، حکمت ، فراست سب کی ویلیو زیرو ہوتی ہے، یہاں صرف پیسہ ہی ایک قابل قدر شئی ہوتی ہے، تو اس معاشرے کا اصول ہوتا ہے “عزت چاہیے تو پیسہ لائیے” یہاں آپ کی ماہانہ انکم کے ڈیجیٹ معاشرے میں آپ کا مقام طے کرتے ہیں، یہاں آپ کے کپڑوں ، موبائل ، گھڑی اور گاڑی کا برانڈ طے کرتا ہے کہ آپ کتنی عزت کے مستحق ہیں، یہاں آپ کے کاروبار اور پراپرٹی کی کی ویلیو کے حساب سے لوگوں کی توجہ آپ کو ملتی ہے، یہاں آپ کی زیر استعمال اشیاء طے کرتی ہیں کہ آپ “لوور کلاس ” ہیں، “مڈل کلاس” ہیں یا پھر”اپر کلاس”
تو جب کسی معاشرے میں اخلاق وکردار کی ویلیو زیرو ہوجائے ، مال ودولت شرافت و نجابت کی دلیل بن جائے، دنیا ہی کیا دعوتی ادارے اور مدارس ومساجد کی ٹرسٹی شپ بھی مال دیکھ کر بانٹی جائے، تو تنافس اور مقابلہ آرائی بھی اخلاق وکردار سنوارنے میں نہیں مال بنانے میں ہوگی اور جب مقابلہ ہوتا ہے تو حلال وحرام کی پرواہ کون کرتا ہے، پھر تو معاشرہ نبی ﷺ کی اس حدیث کی عملی تصویر بن جاتا ہے:
((يأتي على الناس زمان لا يبالي المرء ما أخذ منه، أمن الحلال أم الحرام))
“ایک دور آئے گا جب جب انسان اس کی پراہ نہیں کرے گا کہ جو مال وہ کما رہا ہے وہ حلال ہے یا حرام ” بخاری
اور اس پوری صورت حال کا مجرم صرف حرام کمانے والا نہیں وہ شخص بھی ہے جو محض مال کی وجہ سے کسی کی عزت کرتا ہے یہ دیکھے بغیر کہ جو مال اس نے کمایا ہے وہ حلال ہے یا حرام
(سرفراز فیضی)