جب برائی کو روکنے سے بڑی برائی کا خدشہ ہو
✿ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَوْلَا حَدَاثَةُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَنَقَضْتُ الْبَيْتَ، ثُمَّ لَبَنَيْتُهُ عَلَى أَسَاسِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ.
’’اگر آپ کی قوم نئی نئی کفر سے اسلام میں نہ آئی ہوتی تو میں کعبہ کو گرا کر اسے ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کرتا۔‘‘
(صحیح البخاري: ١٥٨٥)
⇚حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٨٥٢هـ) فرماتے ہیں:
’’کسی منکر (برائی) کا انکار اس خوف سے چھوڑ دینا کہ کہیں اس کے انکار سے اس سے بھی بڑا منکر پیدا نہ ہو جائے۔‘‘
(فتح الباري: ١/ ٢٢٥)
⇚حافظ ابن قیم رحمہ اللہ (٧٥١هـ) فرماتے ہیں:
’’نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کے لیے برائی سے روکنا واجب قرار دیا، تاکہ اس کے انکار سے وہ بھلائی حاصل ہو جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہے۔
لیکن اگر کسی برائی کے روکنے سے اس سے بھی بڑی اور زیادہ ناپسندیدہ چیز جنم لے، جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک زیادہ مبغوض ہو، تو پھر اس برائی کا انکار جائز نہیں، چاہے اصل میں وہ اللہ کو ناپسند ہی کیوں نہ ہو اور اس کے کرنے والے اللہ کے غضب کے مستحق ہی کیوں نہ ہوں۔
اس کی مثال حکمرانوں پر نکیر (انکار) کرنے یا ان کے خلاف خروج کرنے کی ہے؛ یہ وہ کام ہے جو ہر فتنے اور ہر شر کی جڑ ہے، اور قیامت تک فتنوں کی بنیاد ہے۔
صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ سے اُن امراء کے خلاف قتال کی اجازت مانگی جو نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کریں گے۔
انہوں نے عرض کیا: ’’کیا ہم ان سے قتال نہ کریں؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں۔‘‘
(صحیح مسلم: ٥٣٤، ١٨٥٤)
اور آپ نے فرمایا:
’’جس نے اپنے امیر میں کوئی ناپسندیدہ بات دیکھی، وہ صبر کرے، اور اطاعت سے ہاتھ نہ نکالے (یعنی بغاوت نہ کرے)۔‘‘
(صحیح البخاري: ٧٠٥٣، صحیح مسلم: ١٨٤٩)
جو بھی اسلامی تاریخ میں پیش آنے والے بڑے، چھوٹے فتنوں پر غور کرے، وہ دیکھے گا کہ ان سب کی جڑ اسی اصول کی خلاف ورزی کرنا، کسی منکر (برائی) کو وقتی طور پر برداشت نہ کرنا اور اسے زبردستی مٹانے کی کرنا ہے۔ جس کی وجہ سے اس سے بھی بڑی خرابی پیدا ہو گئی۔
نبی کریم ﷺ مکہ میں بڑی بڑی برائیوں کو دیکھتے تھے، لیکن ان کو بدلنے کی قدرت نہ رکھتے تھے۔ بلکہ جب اللہ تعالی نے مکہ کو فتح فرمایا اور وہ دار الاسلام بن گیا، تو آپ ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ کعبہ کو گرا کر اسے ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کریں، لیکن اس کے باوجود کہ آپ اس پر قادر تھے، آپ نے ایسا نہ کیا، اس خوف سے کہ قریش اس کو برداشت نہ کر سکیں گے، کیونکہ ان کا اسلام میں داخلہ ابھی تازہ تھا اور وہ ابھی حال ہی میں کفر سے نکلے تھے۔
اسی وجہ سے آپ ﷺ نے حکمرانوں پر ہاتھ سے انکار (یعنی طاقت سے بغاوت) کی اجازت نہیں دی، کیونکہ اس کا نتیجہ اکثر اس سے بھی بڑے فتنوں اور خرابیوں کی صورت میں نکلتا ہے، جیسا کہ تاریخ نے ثابت بھی کر دیا۔‘‘
(أعلام الموقعين: ٣/ ٤٣٠ – ٤٣١)
حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ