1947،جب اہل گلگت بلتستان نے ظالم و طاقتور ڈوگرہ راج کو علاقے سے خود مار بھگایا، آزادی کو بزور بازو عوامی طاقت سے خود حاصل کرکے پاکستان کا حصہ بنایا۔
انہیں آزادی دلانے آزادکــــــشمیـر کی طرح قبائلی مجــــــا ہـد یـــن بھی نہیں آئے تھے اور انہوں نے یہ کارنامہ خود انجام دیا تھا،لیکن اس کے باوجود کمال یہ کہ آج تک ان کی یہاں آئینی حیثیت تک متعین نہیں ہو سکی،پاکستان انہیں ریاست ک شمیر کا حصہ بھی قرار دیتا اور اس کی الگ حیثیت بھی اول دن سے قائم رکھی ہوئی ہے۔
انہیں آزاد کشمیر کی اسمبلی یا آزاد ریاست کے ریاستی سسٹم کا بھی حصہ کبھی نہیں بنایا اور اپنے ساتھ وفاق میں بھی الگ صوبے کادرجہ بھی نہیں دیا۔اس وقت گلگت بلتستان کی الگ اسمبلی وزیراعلیٰ اور گورنر بھی موجود لیکن نہ تو وہ ملکی صوبہ ہے نہ ریاست نہ آزاد ریاست کا حصہ ۔۔۔۔۔۔
یہاں کے لوگ خود کو نہ کشمیری کہتے ہیں نہ سمجھتے ہیں نہ ان کی ریاست کا حصہ بننا چاہتے ہیں نہ ہی یہ چاہت آزاد کشمیر والوں کی ہے۔
پاکستان نے چین کے اصرار پر سی پیک روٹ کی وجہ اسے الگ حیثیت دینے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ یہ متنازع کے کھاتے سے باہر ہو تو دوسری طرف اسے بھی الگ ہی گھمن گھیری میں ڈال دیا گیا۔
یہاں کی اس عجیب و غریب ڈانواں ڈول اور معلق و شتر بے مہار حیثیت کی وجہ سے یہاں کے انتہائی قیمتی معدنی و قدرتی وسائل سے بھی پاکستان فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی یہ معلق حیثیت ختم کرکے انہیں باقاعدہ آئینی و ریاستی اکائی کی صورت میں ملک کا حصہ بنایا جائے تاکہ یہ علاقہ ،اس کے باسی اور سارا ملک و قوم اس مخمصے میں سے باہر نکلیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
گلگت بلتستان نے خود آزادی حاصل کرکے اور بعد میں آنے والی بھارتی فوجوں کو بھی یہاں داخلے سے روک کر پاکستان سے الحاق کیا لیکن ان کے یوں اپنے ہی حاصل کردہ خطے کے کئی حصے ہم چین کو تحفہ دے چکے یابھارت کو ہار چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سب دکھوں کے باوجود ہماری طرف سے
اہل گلگت بلتستان کو 1 نومبر 1947 کا
76 واں یوم آزادی مبارک ہو۔
اس دعا کے ساتھ کہ جس خواب کے تحت وہ پاکستان سے ملے تھے،وہ مکمل ہو جائے اور ان کے چھنے علاقے بھی انہیں مل جائیں۔
(علی عمران شاہین)