دینی جماعتیں اور مختلف دینی مقاصد کے لیے ان کی سرگرمیاں تائید کی مستحق ہوتی ہیں، لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ جماعتیں اور تنظیمیں بذات خود بعض ایسی عجیب و غریب حرکتوں میں مبتلا ہو جاتی ہیں کہ اس کی توقع ایک عام انسان سے نہیں ہوتی چہ جائیکہ دین کے نام پر اس قسم کی کوتاہیاں منظر عام پر آئیں۔ مثلا:
ایک مقرر تقریر کر رہا ہو، لیکن اچانک کسی شخصیت کے اسٹیج پر آنے سے وہاں موجود تماشائیوں کا آپے سے باہر ہو کر نعرے لگانا یا مائیک کے اوپر اونچی اونچی ترانے چلا دینا، اس کا شرعی یا اخلاقی کیا جواز ہے؟ اور بالخصوص اس صورت میں جب مقرر قرآن یا حدیثِ نبوی کی تلاوت کر رہا ہو؟
تقریبا ہر جماعت کے جلسے میں چند سالوں سے اس قسم کی بدتمیزی دیکھنے میں آرہی ہے، بعض دفعہ کچھ مقررین نے سرِ عام ٹوکا بھی ہے، لیکن عجیب خبط اور جنون ہے، کہ آرام و سکون کی کوئی صورت نظر نہیں آتی!
یہی کام اگر کسی ٹی وی پر یا کسی دنیاوی پلیٹ فارم پر ہو، تو ہم سب نے یک زباں ہو کر توہینِ قرآن کا مقدمہ بنا کر احتجاج کرنا ہے، لیکن خود دینی جلسوں میں جہالت ننگا ناچ رہی ہے اور سمجھدار لوگ بے بس و بے کس نظر آ رہے ہیں!
کسی شخصیت کی خصوصی حفاوت و تکریم کی اگر ضرورت ہے، تو نظم و ضبط ایسا بنائیں کہ جب کسی شخصیت نے آنا ہو اور اس کے استقبال کے لیے نعروں کی ضرورت ہے، تو اس وقت مائیک خالی ہو۔ یا اگر ایسا ممکن نہیں تو اس شخصیت کو آنے دیں اور آرام سکون سے بیٹھ لینے دیں، جب مقرر تقریر ختم کر لے تو پھر شوق پورا کر لیں، یا پھر جب اس شخصیت کو دعوت دینی ہے، تو اس وقت یہ سارا اہتمام بلکہ شور و غوغا کر لیں!
کئی دفعہ جلسوں کی کاروائیاں دیکھی ہیں، یہ نعرے لگانے والے ایسے نامعقول اور جذباتی ہو جاتے ہیں کہ مقرر کے ہاتھ سے مائیک تک چھین لیتے ہیں!
اور صاف نظر آ رہا ہوتا ہے کہ یہ جہالت وقتی ابال ہے، جس کے لیے کسی امیر و غریب عالم و غیر عالم، قائد و غیر قائد سے مشاورت کی قطعی ضرورت نہیں سمجھی جاتی!
گویا یہ خالصتنا جاہلانہ اور جذباتی طرز عمل ہے، جسے جہلاء اور احمقوں میں نے آپس میں پروان چڑھانے پر ’اجماع سکوتی’ کر لیا ہے!
ضرورت اس امر کی ہے کہ ذمہ داران کو اسی اسٹیج پر ان چیزوں کی تردید اور مذمت کرنی چاہیے، یا کم ازکم بعد میں سمجھا دیا جائے کہ ایسی حرکتیں غیر مناسب ہیں، تاکہ آئندہ پھر وہی ہلڑ بازی کا مظاہرہ نہ ہو!
لیکن افسوس یہ کوتاہیاں اور خرابیاں مسلسل نہ صرف موجود ہیں، بلکہ اگر کوئی بات کرے تو اسے جماعتی، تنظیمی تعصب کا رخ دے کر سمجھا جاتا ہے کہ شاید تنقید کرنے والا کسی جماعت یا اس کے کسی دینی کاز کے خلاف ہے!
بہرصورت جن کو اللہ نے توفیق دی ہے، انہیں چاہیے کہ اس قسم کے منکرات پر نکیر اور تنقید ضرور کریں، تاکہ ایسا نہ ہو کہ آہستہ آہستہ ایسی نسل آئے کہ ان کے لیے یہ اعلانیہ کوتاہیاں دلیل بن جائیں اور وہ کہیں کہ اگر فلاں ’علامہ صاحب’ ’قائد محترم’، امیر المؤمنین’، قائدِ ملت’ یا ’شیخ الاسلام صاحب’ یا ’ولی کامل’ صاحب کا استقبال ایسے ہوتا رہا ہے اور اس پر نعرے لگتے رہے ہیں اور کسی نے ٹوکا نہیں، تو آپ کون ہوتے ہیں روکنے والے؟
کیونکہ إنا وجدنا آباءنا علی آمۃ وإنا علی آثارہم مقتدون
خطرناک دلیل بن جاتی ہے!
بلکہ بہت مناسب ہو گا کہ ہر جماعت اور انتظامیہ اپنے جلسوں کے حوالے سے ضابطہ اخلاق جاری کرے، جس میں باقاعدہ اس قسم کی کوتاہیوں کو متعین کرکے بیان کر دیا جائے اور مسلسل اس کی یادہانی کروائی جائے!
وذکر فإن الذکری تنفع المؤمنین!!
اور جس طرح جلسوں میں ہونے والی اس قسم کی ہلڑ بازی نمایاں ہو جاتی ہے، اسی طرح اس پر ہونے والی تنقید یا اصلاح کو بھی وائرل کیا جائے۔
#خیال_خاطر