جامعہ سلفیہ کے سابقہ شیوخ الحدیث کا مختصر تعارف

شيوخ الحديث جامعه سلفيه
جامعہ سلفیہ کے قیام سے اب تک جن عالی مرتبت محدثین نے جامعہ سلفیہ میں بطور شیخ الحدیث خدمات سر انجام دیں۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
(1)شیخ الحدیث عطاء الله حنیف بھوجیانی رحمه الله
(2)شیخ الحدیث حافظ محمد گوندلوی رحمه الله
(3)شیخ الحدیث حافظ عبدالله بدهیمالوی رحمه الله
(4)شیخ الحدیث محمد عبده الفلاح رحمه الله
(5)شیخ الحدیث پیر محمد يعقوب قريشي رحمه الله
(6)شیخ الحدیث محمد صديق رحمه الله
(7)شیخ الحدیث حافظ ثناءاللہ مدنی رحمہ اللہ
(8)شیخ الحدیث محمد سلطان محمود رحمه الله (جلال پوری)
(9)شیخ الحدیث حافظ احمد الله بڈھیمالوی رحمہ اللہ
(10)شیخ الحدیث حافظ عبدالعزيز علوی صاحب حفظہ الله
(11)شیخ الحدیث مولانا یونس بٹ صاحب رحمہ اللہ
(12)شیخ الحدیث مولانا عبدالحنان زاہد حفظہ اللہ
(13)شیخ الحدیث ڈاکٹر عتیق الرحمن حفظہ اللہ
(نوٹ: تحریر کی طوالت کی وجہ سے اس میں 6 شیوخ الحدیث کا تذکرہ کیا جائے گا باقی کا آئندہ پوسٹ میں ان شاءاللہ )

شیخ الحدیث عطاء الله حنیف بھوجیانی رحمه الله
مولانا عطاءاللہ حنیف لگ بھگ 1909ء میں بھوجیاں ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے۔ مولانانے ابتدائی تعلیم اپنی بستی کے مدرسہ میں حاصل کی۔ اس کے بعد دہلی تشریف لے گئے۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی مولانا شرف الدین دھلوی رحمہ اللہ، مولانا عطاء اللہ لکھوی رحمہ اللہ، مولانا حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ شامل ہیں۔
بڑی محنت اور لگن کےساتھ تحصیل علم میں مصروف رہے۔ فراغت کے بعد مختلف مقامات پر تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ تدریس کے ساتھ آپ نے بہت عمدہ
تصنیفی کام بھی کیا۔ جس میں شہرہ آفاق تصنیف نسائی شریف کی شرح التعلیقات السلفیہ ہے۔ جسے عرب وعجم میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔ مولانا جامعہ سلفیہ کے اولین شیخ الحدیث تھے۔ جب جامعہ سلفیہ کا آغاز لاہور میں ہواتھا۔ انہوں نے بڑی محنت اور خلوص کے ساتھ یہ خدمت سر انجام دی۔ مولانا 3 اکتوبر 1987 کی درمیانی شب کو لاہور میں وفات پاگئے۔
شیخ الحدیث حافظ محمد گوندلوی رحمه الله
حضرت حافظ محمد گوندلوی 1897ء کو گوندلانوالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گرامی فضل دین بہت صالح اور پرہیز گار تھے۔ آٹھ سال کو پہنچے تو والد گرامی کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد والدہ ماجدہ نے مدرسہ غزنویہ امر تسر میں بھیج دیا۔ اس کے بعد دہلی چلے گئے۔ دینی تعلیم کے ساتھ حکیم اجمل کے طبیہ کالج میں طب کی سند حاصل کی ۔ علم و فضل میں آپ نے کمال درجہ حاصل کیا۔ اور برصغیر پاک وہند میں آپ کے پائے کا کوئی محدث نہ تھا۔ تدریس حدیث میں آپ کو ممتاز مقام حاصل
تھا۔ اور علماءکرام دور دراز سے علم حدیث پڑھنے کے لیے تشریف لاتے۔ آپ کی شہرت عرب ممالک بھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسلامک یونیورسٹی مدینہ منورہ کا قیام عمل میں آیا۔
توحدیث کی تدریس کے لیے آپ کی خدمات حاصل کی گئی۔ آپ کچھ عرصہ کے لیے یہ خدمت سر انجام دیتے رہے۔ آپ جامعہ سلفیہ کے دوسرے شیخ الحدیث مقرر ہوئے ۔ جب جامعہ سلفیہ کولاہور سے فیصل آباد منتقل کر دیا گیا تھا۔ اکابرین کی خصوصی درخواست
پرآپ نے یہ منصب قبول کیا۔ 4 جون 1985 کو رحلت فرمائی۔اور گوجرانوالہ میں دفن ہوئے۔
شیخ الحدیث حافظ عبد الله بڈھیمالوی رحمه الله
حافظ عبداللہ بڈھیمالوی بن مولانا عبدالکریم رحمہ اللہ
آپ یکم مارچ 1909 کو بڈھیمال ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سے حاصل کی قرآن مجید کی آخری منزل بھی انہیں سے یاد کی حافظ عبداللہ صاحب کھیتوں
میں والدگرامی کے ساتھ کام کاج کروایا کرتے تھے ان کا ہاتھ بٹاتے تھے وہاں ریاست فرید کوٹ میں ایک گاؤں آرائیاں والا تھا وہاں ایک بزرگ مولوی عبدالغنی رحمہ اللہ نے دینی مدرسہ جاری کیا تھا ممدوح کے والد گرامی عبدالکریم رحمہ اللہ وہاں تدریس کیا کرتے تھے اور ساتھ اپنے بیٹے کو بھی وہاں لے گئے حافظ صاحب نے وہاں تین سال استفادہ کیا ان دنوں اپنے والد گرامی سے جو کتب پڑھیں ان میں قرآن مجید کا مکمل ترجمہ فارسی کی کتب تحفہ نصائح، گلستان، بوستان، ابواب الصرف، ہدایۃ النحو ،زراوی، نحو میر ،صرف میر، فصول اکبری، شرح مائۃ عامل۔
والد گرامی کچھ عرصہ کے بعد واپس بڈھیمال میں واپس تشریف لائے ممدوح نے کچھ کتب گھر میں والد صاحب سے پڑھیں۔
پھر مولاناعطاءالرحمن لکھوی کے حضور زانوئے شاگردی تہد کرنے کی سعادت سے بہرہ یاب ہوئے۔
حافظ عبد اللہ بڈھیمالوی رحمہ اللہ تین سال حلقہ درس میں شریک رہے اور لکھوی صاحب سے کچھ کتب پڑھیں جن میں سنن ابی داؤد،ابن ماجہ تفسیر جلالین، شرح تہذیب ،قطبی، وقایہ، شرح جامی وغیرہ۔
بعد ازاں حضرت حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کی خدمت میں گوندلانوالہ(ضلع گوجرانوالہ )میں تشریف لے گئے وہاں حافظ صاحب سے صحیح البخاری، صحیح مسلم،جامع ترمذی، حماسہ، متنبی، مقدمہ ابن صلاح، سراجی وغیرہ کتب پڑھیں۔
1933 کے قریب تدریس کا آغاز کیا اور مختلف مدارس میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے بعد ذراں جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں بطور شیخ الحدیث کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔
شیخ محترم کے تلامذہ
(1) شیخ الحدیث حافظ محمد امین حفظہ اللہ (دار العلوم تقویۃ الاسلام۔اوڈانوالہ)
(2)شیخ الحدیث والتفسیر حافظ عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ
(3)علامہ احسان الہی ظہیر شہید رحمہ اللہ
(4)حافظ عزیز الرحمن لکھوی مرحوم( رینالہ خورد ضلع اوکاڑہ)
(5)محقق العصر ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ (اداره علوم اثریہ فیصل )
(6)شیخ الحدیث حافظ عبدالعزيز علوی حفظہ اللہ(جامعہ سلفیہ فیصل آباد)
(7) مولانا عبد الخالق قدوسی شهید رحمہ اللہ(مکتبہ قدوسیہ لاہور)
(8) ڈاکٹر مجیب الرحمن صاحب بنگالی
وفات
1987 میں ستیانہ بنگلہ کے مرکز الدعوة السلفیہ میں دورہ تفسیرکررہے تھے اچانک سینے میں درد ہوئی اسی وجہ سے وفات ہو گئی۔
شیخ الحدیث محمد عبده الفلاح رحمه الله
آپ 1917 کو موضع ونواں ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جس میں سکول اور دینیات اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ پھر بڑھیمال میں پڑھتے رہے۔ اس کے بعد دہلی تشریف لے گئے۔ دہلی کی معروف مسجد فتح پوری میں تحصیل علم کیا۔ اور آخر میں حضرت حافظ محمد گوندلوی
مرحوم سے گوجرانوالہ میں بخاری شریف پڑھی۔
فراغت کے بعد تدریس کے میدان میں آگے۔ آپ نے گوجرانوالہ، اوڈانوالہ،اوکاڑہ، فیصل آباد میں تدریسی فرائض سر انجام دیئے۔
خصوصا جامعہ سلفیہ میں بڑی کتب کے علاوہ بخاری شریف پڑھاتے تھے۔
آپ کو تفہیم کا ملکہ حاصل تھا۔ مختصر مگر جامع گفتگو کرتے۔ اور تدریس کا حق ادا کر دیتے ۔ مشکل سے مشکل بحث کو آسانی کے ساتھ سمجھا دیتے ۔ تصنیف وتالیف اور ترجمہ کا عمدہ ذوق پایا تھا۔ آپ نے کئی یادگار تصانیف چھوڑی ہیں۔ جن میں معروف ترین اشرف الحواشی ہے۔ جو کہ قرآن حکیم پر مختصر تفسیر ہے۔
آپ دو مرتبہ جامعہ سلفیہ میں بطور شیخ الحدیث رہے ہیں ۔ دوسری مرتبہ جب آپ اس منصب پر فائز ہوئے ۔ تو آپ گلے کے مریض بن گئے۔ زیادہ بلند آواز میں بات نہ کرسکتے تھے۔ جس سے طلبہ آپ کی گفتگو نہ سن سکتے تھے۔ مائیک کا انتظام کرنے کے باوجود بات نہ بنی۔ تو پھر خود ہی
مستعفی ہوگئے۔لیکن جامعہ کی انتظامیہ نے آپ کاوظیفہ برابر جاری رکھا۔
آپ نے حاجی آباد فیصل آباد میں رحلت فرمائی۔ جامعہ سلفیہ میں نماز جناز و ادا کی گئی ۔ اور گاؤں نزد تاندلیانوالہ میں سپردخاک کئے گئے۔
شیخ الحدیث پیر محمد يعقوب قريشي رحمه الله
آپ 1926 کو چک حافظاں ضلع جہلم میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جہلم میں حاصل کی۔ بعد ازاں گوجرانوالہ اور اوڈانوالہ میں پڑھتے رہے۔ آپ نے اساتذہ میں مولانا حافظ محمد گوندلوی، مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا اسحاق حسینوی شامل ہیں۔ مختلف مدراس میں تدریسی فرائض سر انجام دیتے رہے۔ عربی ادب سے خاص لگاؤ تھا۔ جامعہ سلفیہ میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے۔ اور اس کے ساتھ دیگر کتب بھی پڑھاتے تھے۔ آپ نے 20 جولائی 2003 کو فیصل آباد میں رحلت فرمائی۔
جامعہ سلفیہ میں نماز جناز و ادا کی گئی۔ او اپنے آبائی گاؤں حافظاں والہ میں سپردخاک ہوئے۔
شیخ الحدیث محمد صديق رحمه الله
مولانا محمد صدیق خان بلوچ تاندلیانوالہ کے قریب کرپالہ گاؤں میں 4 فروری 1921ء کو پیدا ہوئے ۔ آپ کا پہلا نام صادق علی تھا۔ لیکن ایک دینی علوم پڑھتے ہوئے آپ نے اپنا نام محمد صدیق رکھ لیا۔ آپ نے بڑی عمر میں دینی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ مولانا محمد باقر کے مدرسہ جھوک دادو کارخ کیا۔
ان کی شفقت محبت اور خصوصی توجہ سے آپ نے تعلیم مکمل کی۔ آپ کے اساتذہ میں مولاناحافظ عبد اللہ بڈمالوی مرحوم بھی شامل ہیں۔ آپ بہت جرات مند بہادر اور نڈر تھے۔ آپ لاجواب اور مثالی خطیب تھے۔ بہت مرتب گفتگو کرتے ۔ بہت اچھا شاعری کاذوق رکھتے۔اور اپنی تقریر کو اشعار سے مزین فرماتے تھے۔ شیعیت پر وسیع مطالعہ تھا۔ اور اہم امتیازی مسائل میں مناظرہ کرتے تھے۔ جامع مسجد امین پور بازار میں خطیب مقرر ہوئے ۔ تو آپ کی
علمی اور عوامی گفتگو نے لوگوں کے دل موہ لیے ۔ جامع مسجد میں جگہ کم پڑ جاتی اور اکثر بازار کو بند کرکے صفیں بچھائی جاتی تھیں۔ کتاب وسنت کی دعوت عام دیتے۔ اورآپ کی موثر گفتگو سے متاثر ہوکر لا تعداد لوگوں نے اپنی فکر اور نظریہ وتبدیل کیا۔ اور آج فیصل آباد میں اہل حدیث مکتبہ فکر کو اہمیت حاصل
ہے۔ یہ مولانا کی کوششوں کا نتیجہ ہے آپ کا جامعہ سلفیہ کے ساتھ بھی بڑا گہراتعلق رہا۔ ابتداء میں آپ دیگر رفقاء مثلا مولانا محمد رفیق مدن پوری، مولانا محمد اسحاق چیمہ کے ہمراہ دیہاتوں میں بھی جاتے۔
اور جامعہ کے لیے گندم اور تعاون حاصل کرتے تھے۔1956ء میں جامع سلفیہ میں پہلا تعلیمی سال شروع ہوا چنانچہ مولانا صدیق صاحب کو جامعہ کا ناظم مقرر کیا گیا چند سال بعد مولانا اسحاق چیمہ کو ناظم مقرر کر دیا گیا تھا کچھ عرصہ بعد دوبارہ مولانا صدیق صاحب کو ناظم مقرر کر دیا گیا آخری عمر تک وہ اس عہدے پر فائض رہے مولانا جامعہ کے مدیر التعلیم بھی مقرر ہوئے مولانا محمد صدیق مصنف بھی تھے انہوں نے جامعہ کے لیے بہت سی اہم خدمات سرانجام دی مولانا صدیق صاحب طویل علالت کے بعد 12 ستمبر 1989ء کو وفات پائی انہوں کے آبائی گاؤں کرپالہ متصل تاندلیانوالہ میں سپرد خاک کیا گیا۔
(ماخذ: جامعہ سلفیہ تاریخ کے آئینہ میں
مرتب: حافظ فاروق الرحمن یزدانی حفظہ اللہ)

●ناشر: حافظ امجد ربانی
●متعلم: جامعہ سلفیہ فیصل آباد

یہ بھی پڑھیں:ام المدارس جامعہ سلفیہ فیصل آباد کا مختصر تعارف