ام المدارس جامعہ سلفیہ فیصل آباد کا مختصر تعارف

جامعہ سلفیہ فیصل آباد پاکستان کی معروف دانشگاہ ہے۔ یہ مرکزی دارالعلوم عرصہ 69 سال سے تعلیمی، تربیتی،دعوتی واصلاحی خدمات سر انجام دے رہا ہے
جہاں آغاز سے لے کر اب تک سینکڑوں طلباء حصول علم کرچکے ہیں اورملک وبیرون میں اہم عہدوں پر فائزہیں۔جامعہ کے قیام کے لیے اس کے بانی وقائدین نے سخت جدوجہد کی۔جب تک جامعہ کے نام قیام فیصل آباد میں نہیں ہوااس وقت مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کے مدرسہ دارالعلوم تقویۃ الاسلام میں تعلیم کاآغاز کردیاگیا۔آغاز میں جن طلباء نے داخلہ لیا ان کی علمی قابلیت نہ ہونے کے برابر تھی جامعہ میں ان کے لیے سپیشل کلاسز کا اجراء کردیاگیا۔جامعہ کے موسسین نے جامعہ کے طلباء کے لیے مفید ادارہ بنانے کے لیے بے انتہا محنت کی۔ان کی کوششوں کانتیجہ ہے کہ جامعہ میں ہزاروں طلباء تعلیم حاصل کرکے علماء کرام کی جماعت میں داخل ہوچکے ہیں اور بخوبی اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں جامعہ کے قیام کے وقت ان کے جو اہداف اور مقاصد متعین کیے تھے ان پر کافی حد تک عمل ہوچکاہے جامعہ سلفیہ جید علماء کرام کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔تقسیم ملک کے وقت علماء کرام کے خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگئے ۔مولانامحمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ شیخ الحدیث اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے ان علماء کرام کو ایک پلیٹ فارم پرجمع کیا اور مرکزی جمعیت اہل حدیث مغربی پاکستان کے نام سے ایک جماعت بنائی اور اس جماعت کی ترجمانی اور بہترین مقررین اور مبلغین کی تیاری کے لیے جامعہ سلفیہ کا قیام عمل میں لایاگیا۔
جامعہ سلفیہ کاسنگ بنیاد
3 یا4 اپریل 1955ء کو مرکزی جمعیت اہل حدیث مغربی پاکستان کی تیسری سالانہ کانفرنس لائل پور(موجود فیصل آباد )میں مولانا محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کی زیر صدارت ہوئی اسی کانفرنس میں 4 اپریل 1955ءکو جامعہ سلفیہ کا سنگ بنیاد رکھ دیاگیا اس تقریب میں بے شمار لوگوں نے شرکت کی جس میں مرکزی جمعیت کے صدر محترم ناظم اعلی اور ارکان عامہ کے علاوہ بہت سے نامور علماء شریک تھے سنگ بنیاد فیصل آباد کے مشہور بزرگ میرحکیم نور الدین(مرحوم) نے رکھی اس کے بعد ضلعی دو معروف شخصیتیں صوفی عبداللہ رحمہ اللہ اور میاں باقر رحمہ اللہ نے ایک ایک اینٹ نصب کی۔مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ناظم اعلی محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے اس موقع پر تقریر فرمائی۔یہ جگہ شیخوپورہ روڈ پراس وقت فیصل آباد سے تین میل کے مسافت پر ہے اس کے مقام بالمقابل کوٹ امین ہے اس کے اردگرد کوئی خاص آبادی نہ تھی کہیں کہیں کوئی گھر نظر آتا تھا۔
جامعہ کامحل وقوع
جامعہ سلفیه شیخو پور روڈ محلہ حاجی آباد میں واقع ہے۔ اس کاکل رقبہ ساڑھے چار ایکڑ پرمشتمل ہے۔ ساڑھے تین ایکڑ پر جامع مسجد، دفاتر،کلاس رومز طلبہ کی رہائش گائیں، لائبریری ہاں، فیصل ہال، طعام گاہ مہمان خانہ، ڈسپنسری، درجہ تخصص کی عمارت بنی ہوئی ہیں۔ جبکہ ایک ایکڑ رقبہ خالی ہے۔
جامعہ کے نام کی تجویز؟
جماعت کے قابل فخر محقق عالم دین مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ کی تجویز سے اس کا نام “الجامعۃ السلفیہ “قرار پایا انہوں نے فرمایا کہ یہ نام آسان بھی ہے اور ہمارے مسلک سے ہم آہنگی بھی ہے اسی طرح جامعہ سلفیہ سے فارغ التحصیل “سلفی” کہلائیں گے۔ یہ ان کے مسلک کی ترجمانی بھی کرے گا اور ان کی تعلیمی اداروں کے مقاصد کی وضاحت کا باعث بھی ہوگا۔
موسسین جامعه
(1)مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ
(2)شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ
(3)میاں محمد باقر رحمہ اللہ
(4)امیر المجاہدین صوفی محمد عبد اللہ رحمہ اللہ
(5)حکیم نورالدین مرحوم و مغفور شامل ہیں۔
موسسین جامعہ سلفیہ کے مختصر حالات زندگی
مولاناسید محمد داؤد غزنوی رحمه الله
مولاناسید محمد داؤد غزنوی 1895ء کو امرتسر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی امام سید عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ اور مولاناسید عبدالاول غزنوی رحمہ اللہ سے حاصل کی۔
اس کے بعد دہلی جاکر مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری ودیگر اساتذہ سے حصول علم کیا۔ قیام پاکستان کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد مرکزی
جمعیت اہل حدیث پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اور علماء اہل حدیث کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں مثالی کردارادا کیا۔ آپکی خصوصی کاوش سے قرارداد مقاصد
پر تمام مکاتب فکر کےعلماء کا اتفاق ہوا۔ پاکستان کی مختلف سیاسی اوردینی تحریکوں میں بھرپور حصہ لیا۔ خصوصا1953ء کی قادیانی تحریک میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان اہل حدیث
کانفرنس کی بنیادرکھی۔ جس کے لیے لاہور، سیالکوٹ، راولپنڈی میں عالی شان کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ آپ رحمہ اللہ کی بلند ترفکر کے نتیجہ میں جامعہ سلفیہ کا
ممکن ہوا۔آپ اس کے پہلے رئیس مقررہوئے۔ جامعہ سلفیہ کی تعمیروترقی میں دن رات کام کیا۔ اور جماعتی زندگی میں ایک نیاولولہ اور جوش پیدا کیا۔ آپ نے علمی اور سیاسی اعتبار سے بھر پور زندگی بسر کی۔ آپ 16دسمبر 1963ء
بروز سوموار کوحرکت قلب بند ہونے سے رحلت فرماگئے۔ اور لاہور میں مدفون ہوئے۔
مولانامحمد اسماعيل سلفی رحمه الله
مولانا محمد اسماعیل سلفی موضع ڈھول کے تحصیل وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ میں 1897ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مولانامحمد ابراہیم نہایت صالح اور متقی
بزرگ تھے۔اپنے بیٹے کی بہترین تربیت کی۔ ابتدائی تعلیم خودہی۔ وزیر آباد میں مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی رحمہ اللہ کی خدمت میں رہ کراستفادہ کیا۔ اس کے بعد مدرسہ غزنویہ امر تسر تشریف لے گئے۔
وہاں تعلیم حاصل کی۔ اور1921ءکو واپس گوجرانوالہ آکر مرکزی جامع مسجد اہل
حدیث میں خطابت اور درس و تدریس میں مصروف ہوئے۔ آپ نے بھی تحریک پاکستان میں بھر پور حصہ لیا۔ قیام پاکستان کے بعد مرکزی جمعت کی تاسیس میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اہل حدیث علماء اور عوام کو منظم کرنے میں آپ کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ خصوصاً گوجرانوالہ میں کتاب وسنت کی تعلیم کو عام کرنے اور علماء کی جماعت
تیار کرنے میں مثالی کام سرانجام دیا۔ جامعہ سلفیہ کی تاسیس میں فکری رہنمائی اور علمی اقدام اٹھائے۔ اس کی تعمیر وترقی میں ہر ممکن کوشش کی۔ اور تمام بڑے شہروں سے تعاون حاصل کی آپ
20 فروری 1968ء کوسفرآخرت پر روانہ ہوئے۔ اورگوجرانوالہ کی تاریخ میں آپ کا جنازہ سب سے بڑاتھا۔ اور بڑے قبرستان میں مدفون ہوئے۔
میاں محمد باقر رحمه الله
میاں محمد باقر 1895ءکو جھوک دادو چک نمبر 427 گ۔ بے تحصیل تاندلیانوالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے حضرت حافظ عبدالمنان وزیر آبادی رحمہ اللہ سے تحصیل
علم کیا۔ اورحضرت امام عبد الجبار غزنوی رحمہ اللہ سے خصوصی روحانی فیض پایا۔ علم کے ساتھ ساتھ عملی زندگی کا بہترین نمونہ تھے۔ مستجاب الدعوات تھے۔ اللہ تعالی کی محبت میں مستغرق رہتے۔ نبی
کریمﷺکے ساتھ تعلق کا یہ عالم تھا۔ کہ ہرکام سنت نبویﷺ کے مطابق انجام دیتے۔ قرآن وحدیث کی تدریس کا بے حد شوق تھا۔اور پورے خلوص کے ساتھ یہ فریضہ سر انجام دیتے۔
اپنے گاؤں میں مدرسہ خادم القرآن والحدیث قائم کیا۔ جہاں طلبہ کے ساتھ طالبات کی تعلیم کا بھی شاندار اہتمام تھا۔یہ طالبات کی تعلیم کا اولین مدرسہ تھا۔
اور جہاں کی فضاخواتین نے ملک بھر تعلیمی ادارے قائم کیے ۔ ان کی تعلیمی، دعوتی خدمات کے نتیجے میں نامور علماء حلقہ بگوش اہل حدیث ہوئے۔ جن میں قابل ذکرمولانا محمدصدیق بلوچ اور
مولانا علی محمد حنیف السلفی ہیں۔ آپ نے 11جون 1977ءکو رحلت فرمائی۔ اور آبائی گاؤں میں مدفون ہوئے۔
صوفی محمد عبد الله رحمه الله
آپ وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وزیر آباد میں حاصل کی۔ آغاز جوانی میں مولانا فضل الہی کی جہادی سرگرمیوں سے متاثر ہوکر چمرکند
کی جامعت مجاہدین سے وابستہ ہوگئے تھے۔ آپ کا اصل نام سلطان تھا۔ لیکن عرفی نام عبداللہ رکھاگیاتھا۔جوبعد میں
صوفی عبداللہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ 1923ءکے قریب آپ چک 493 اوڈانوالہ میں تشریف لے آئے ۔1932ء میں باقاعدہ مدرس تعلیم الاسلام کے نام سے قائم کیا۔ جہاں سے نامور علماء نے فراغت
حاصل کی۔ بعد میں یہ ادارہ ماموں کانجن منتقل کردیاگیا۔ جس کے لیے وسیع اراضی خرید لی گئی۔ اور نہایت شاندار عمارت تعمیر کی گئی۔ آپ بہت صالح متقی اور
ذکر وفکرکرنے والے بزرگ تھے۔ آپ کے مریدین کا وسیع حلقہ تھا۔ سالانہ کانفرنس کے موقعہ پراسکا بخوبی اندازہ ہوتا تھا۔آپ نے 28 اپریل 1975ء کو ماموں کانجن میں رحلت فرمائی۔
اور اپنے تعلیمی ادارےکے احاطے میں مدفون ہوئے۔
حكيم نور الدين
آپ 1858ءکے قریب جلال پور جناں ضلع گجرات میں پیدا ہوئے۔جب لائل پور (فیصل آباد ) کی تعمیر ہوئی۔ تو آپ سرکاری خطیب کی حیثیت سے یہاں متعین ہوئے۔ آپ ایک ماہر طبیب ہونے کے ساتھ پختہ عالم دین بھی تھے۔ اور کتاب وسنت کے علوم سے بہرہ مند تھے۔ جس کی تبلیغ کرتے تھے۔ آپ بہت اچھے
منتظم تھے۔ مونسپل کمپنی میں عمدہ کارکردگی کی بنیاد پر آپ کولائل پور کے نواح چک جھمرہ میں دو مربع اراضی دی گئی۔
آپ نے سیاست میں بھی قدم رکھا۔ آپ پہلے اہل حدیث ہیں۔ جنہوں نے فیصل آباد میں انجمن اہل حدیث کی بنیاد رکھی۔ اور امین پور بازار کی جامع مسجد اہل حدیث کی تعمیر میں آپ کا نمایاں حصہ ہے۔ آپ تمام مکاتب فکر کے ہاں یکساں مقبول تھے۔ تحریک پاکستان میں بھی بھر پور حصہ لیا۔ تمام نامور علماء جب لائل پور تشریف لاتے۔ توآپ رحمہ اللہ ان کی میزبانی کا شرف حاصل کرتے بہت مہمان نواز تھے۔11 جون 1960ء کو رحلت فرماگئے۔
جامعہ سلفیہ کے صدر وناظمین
جامعہ سلفیہ کے قیام کے ساتھ ہی ایک جامعہ سلفیہ کمیٹی بنادی گئی تھی۔ مولانا محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ جس کے پہلے صدر مقرر ہوئے۔ جب کہ مولانا محمد اسمٰعیل سلفی ناظم مقرر ہوئے۔ کمیٹی کے باقی ارکان درج ذیل ہیں۔
مولانا محمد حنیف ندوی اللہ،
مولانا محمد اسحاق چیمہ رحمہ اللہ
مولاناعطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ
میاں فضل حق رحمہ اللہ
مولانا محمد صدیق رحمہ اللہ
حاجی محمد اسحاق حنیف رحمہ اللہ
مولاناعبیداللہ احرار اور میاں عبد المجید تھے۔ مولانا غزنوی بخیروخوبی اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔جماعتی مصروفیات اور بعض دیگر عوارض کی وجہ سے آپ نے از
خود یہ منصب میاں فضل حق رحمہ اللہ کے سپرد کردیا۔
میاں فضل حق رحمہ اللہ
آپ1961ء سے لیکر اپنی رحلت 13جنوری 1996ء تک جامعہ سلفیہ کے صدر رہے۔
میاں فضل حق 1920ء کو موضع رعیہ ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد میاں حسن محمد علاقے کے متمول لوگوں میں شمارہوتے تھے۔اورعلماء سے محبت کرتے تھے۔ میاں فضل حق نے ابتدائی تعلیم ویرووال میں شیخ الحدیث مولاناعبداللہ رحمہ اللہ سے حاصل کی۔ اور مشکوۃ شریف تک کتابیں پڑھیں۔ آپ کو دین سے گہرا شغف تھا۔ عملی زندگی میں کتاب وسنت پر سختی سے کار بند تھے۔ دینی حمیت وغیرت آپ کاسرمایہ تھا۔ جہاد سے گہری دلچسپی تھی اور یہ آپ کا پسندیدہ موضوع ہوتا تھا۔ تحریکی ذہن تھا۔ جماعتی زندگی کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔قیام پاکستان کے بعد حافظ آباد میں رہائش اختیار کی۔ جامع مسجد مبارک اور مدرسہ دار الحدیث کی بنیاد رکھی۔ علماء اور صلحاء کی صحبت اختیار کرتے تھے۔ اسی وجہ سے مولانا سیدمحمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کا نظر انتخاب ٹھہرے۔ ان بزرگوں کی قربت سے آپ کے مزاج میں بہت تبدیلی آئی۔ ذکر وفکر تلاوت قرآن کریم اور شب بیداری کی عادت ان بزرگوں سے ورثے میں ملی۔ اور
آخروم تک اس پر قائم رہے۔
آپ بہت باصلاحیت اور بہترین منتظم تھے۔ انتھک محنتی اور بہت باہمت تھے۔ اپنے وسیع کاروبار کے ساتھ جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ۔ اورنہ صرف خدمت کرتے بلکہ ذاتی گرہ سے ہزاروں روپے خرچ کرتے۔ مولاناسید غزنوی رحمہ اللہ اور اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کا ہلکا سا اشارہ بھی مانتا اپنا تن من دھن قربان کرنے کے لیے تیار ہو
جاتے۔ (ان کے ذکر پر اکثر آبدیدہ ہوجاتے )
جامعہ سلفیہ کمیٹی کے صدر منتخب ہونے کے بعد آپ نے جامعہ سلفیہ کی تعمیر وترقی میں تمام ترصلاحتیں صرف کردیں۔ جامعہ سے ملحق زمین خریدکرجامعہ کے نام وقف کی۔ 1971ء میں آپ نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ اور پہلی مرتبہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں جامعہ سلفیہ کا تعارف پیش کیا۔ اور جامعہ کے معادلے، طلبہ کے کوٹے اور عرب اساتذہ کی جامعہ میں تعیناتی کی باقاعدہ منظوری حاصل کی۔یوں سلفیہ میں ایک نئے دورکا آغاز ہوا۔جامعہ کے نصاب میں نمایاں تبدیلیاں کی گئی۔ اور ذہین ترین طلبہ اعلی تعلیم کے لیے سعودیہ جانے لگے۔ عرب اساتذہ کی تدریس سے طلبہ میں عربی اور فکری وسعت پیداہوئی۔جامعہ کی پرانی اور خستہ حال عمارت کی جگہ کی تعمیر کاآغاز ہوا۔آپ نے نئے کلاس روم، فیصل حال،لائبریری،حسن ڈرائینگ حال، ڈسپنسری کی تعمیر مکمل کی۔ اپنے صدارتی دور میں متعدد بین الاقوامی کانفرنسیں منعقد کی۔ اور آپ کی کوششوں سے دنیا بھر کے علماء اور مشائخ جامعہ میں تشریف لاتے رہے۔ خصوصاسعودی عرب کے ممتاز علماء اورآئمہ حرمین جن میں الشیخ محمد بن عبد اللہ سبیل اور الشیخ صالح حمید قابل ذکر ہیں۔ میاں فضل حق رحمہ اللہ میں بے پناہ خوبیاں تھیں۔ معاملہ فہم اور قوت فیصلہ کے مالک تھے۔ آپ نے 13 جنوری 1996ء کو لاہور میں رحلت فرمائی۔ اور کریم
بلاک علامہ اقبال ٹاؤن میں دفن ہوئے۔
میاں نعیم الرحمن طاهر رحمہ اللہ
میاں فضل حق رحمہ اللہ کی رحلت کے بعد جامعہ سلفیہ ٹرسٹ نے بالاتفاق ان کے صاحبزادے میاں نعیم الرحمن کو ٹرسٹ کا صدر کا مقررکیا۔
میاں نعیم الرحمن 1956ء کو حافظ آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم طارق ماڈل سکول میں حاصل کی۔ جب کہ دینی تعلیم جامع مسجد مبارک میں معروف عالم دین مولانا حکیم محمد ابراہیم رحمہ اللہ سے حاصل کی۔ آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی ۔اے کیا۔ اور اپنے والد کے ہمراہ کاروبار میں مصروف ہوگئے۔ اپنے والد کی وجہ سے علماء کرام کی محبت میں بیٹھنے اور استفادہ کاموقعہ ملا۔ بلکہ اپنے گھر میں تمام علماء اور سیاسی عمائدین کی میزبانی خودکرتے ہیں۔ جماعتی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے۔ نیز جامعہ
سلفیہ کے معلامات کو حل کرنے میں پیش پیش رہتے۔ آپ کے دور صدارت میں جامعہ سلفیہ میں نمایاں تعمیری کام ہوا۔ خستہ حال عمارتوں کو گراکر نئی جدید عمارتیں تعمیر کی گئی۔ جن میں طلبہ کے لیے ہاسٹل، کلاس رومز اور دفاتر شامل ہیں۔جب کہ جامع مسجد کی تعمیر کاکام بھی مکمّل کروایاہے۔ آپ نے جامعہ سلفیہ سے وابستہ تمام بہی خواہوں معاونین علماء اور مشائخ کے ساتھ نہ صرف مسلسل رابطہ رکھا۔ بلکہ اس میں مزید اضافہ کیا۔ جامعہ کے نظم ونسق کو بہتر بنانے میں آپ نے گہری دلچسپی لی۔ اور ماہانہ اجلاس منعقد کیے۔ اپنی علالت کے باوجود اجلاس میں شریک ہوتے رہے۔میاں فضل حق رحمہ اللہ نے جو خیراتی جماعتی تعلیمی کام شروع کیے تھے میاں نعیم الرحمن رحمہ اللہ نے ان کاموں کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ پہلے سے زیادہ مالی سرپرستی کی اور انہیں وسعت بھی دی میاں نعیم الرحمن رحمہ اللہ 24 اپریل سن 2011ء بروز اتوار کو رحلت فرماگئے ان کی نماز جنازہ سرپرست جامعہ حضرت علامہ پروفیسر ساجد میر صاحب نے پڑھائی۔ اور انہیں کریم بلاک میں ان کے والدین کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
حاجی بشیر احمد حفظہ اللہ(موجودہ صدر )
میاں نعیم الرحمن رحمہ اللہ کی وفات کے بعد حاجی بشیر احمد حفظہ اللہ کو صدر منتخب کردیاگیا۔
حاجی بشیر صاحب موسسین جامعہ سلفیہ میں سے ہیں جب مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے جمعیت اہل حدیث کی بنیادرکھی اورجن بزرگ حضرات نے ان کا ساتھ دیا ان میں میاں بشیرصاحب بھی شامل ہیں جب جامعہ سلفیہ کی بنیاد رکھی گئی تو بشیر صاحب نے بھی اس وقت ایک اینٹ نصب کی تھی حاجی بشیر صاحب 1932ء کوایک گاؤں پٹی ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے جب تقسیم ہندہوا تووہ پاکستان آکرفیصل آباد میں رہائش پذیرہوگئے ان کے والد کا نام خوشی محمد تھا حاجی کا گھرانہ مذہبی نہیں تھا علماء کرام میں سے مولانا یوسف انور صاحب کے والد عبدالرحمن صاحب حاجی بشیر صاحب کی دکان کے باہر چائے کا کام کرتے تھے عبدالرحمان صاحب نے نیک آدمی تھے وہ بشیر صاحب کو نماز کی تلقین کرتے انہیں نماز کے لیے ساتھ لے جاتے کبھی دروس میں ساتھ لے جاتے اور کبھی قبرستان میں بھی ساتھ لے جاتے دنیا کی حقیقت بتاتے تھے اسی طرح اللہ تعالی نے حاجی بشیر صاحب کے ذہن کو دین کی طرف لگادیا اور ان کا تعلق علماء کرام کے ساتھ بھی قائم ہوگیادوسرے شہروں سے علماء کرام جامعہ تشریف لاتے توبشیرصاحب کے گھر قیام کرتے حاجی صاحب انصاف ٹیکسٹائل مل کے مالک ہیں میاں فضل حق رحمہ اللہ میاں نعیم الرحمن رحمہ اللہ اور صوفی احمد دین رحمہ اللہ حاجی صاحب کے ساتھ شراکت سے کاروبار کرتے تھے حاجی صاحب اب بھی حاجی بشیر احمد انصاف والے کے نام سے مشہور ہیں میاں فضل حق صاحب صدر بنے اس وقت حاجی صاحب جامعہ سلفیہ ٹرسٹ کمیٹی کے نائب صدر تھے اس پرذمہ داری زیادہ نہیں تھی میاں فضل حق صاحب کی وفات کے بعد ان کے بیٹے نعیم الرحمن رحمہ اللہ کو اتفاق سے صدر بنایا گیا تو بھی حاجی صاحب نائب صدر ہی تھے میاں نعیم الرحمن رحمہ جب بیمار ہوئے تو حاجی صاحب پر ٹرسٹ کا بوجھ آن پڑا اور ان کی ذمہ داری بڑھ گئی میاں نعیم الرحمن کی وفات کے بعد متفقہ رائے سے حاجی صاحب کو جامعہ سلفیہ کاصدر بنادیاگیا وہ تاحال اس منصب پرفائز ہیں حاجی صاحب نے جامعہ میں ہونے والے تمام اجلاس اور میٹنگ میں شرکت کی اب تک انہوں نے کوئی میٹنگ نہیں چھوڑی بلکہ وہ وقت سے پہلے ہی پہنچ جاتے ہیں حاجی صاحب ہمیشہ وقت کے پابند ہیں حاجی بشیر صاحب نے جامعہ کے ابتدا سے لے کراب تک بہت زیادہ مالی مدد کی جامعہ سلفیہ ٹرسٹ کے تمام اراکین سے ان کا گہرا تعلق ہے۔
جامعہ سلفیہ کے صدر کے فرائض
جامعہ سلفیہ کے صدر پر درج ذیل ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
(1)جامعہ سلفیہ ٹرسٹ کے ہونے والے تمام اجلاس کی صدارت صدر جامعہ کی ذمہ داری ہے۔
(2) جامعہ کے صدرکا فرض ہوگا کہ وہ ٹرسٹ کے اراکین کی نگرانی کرے اور اس بات کا بھی خیال رکھے کہ ٹرسٹ کی کاروائی متعین کردہ قواعد وضوابط کے مطابق ہو رہی ہے۔
(3)صدر انتظامیہ کاانچارج ہوگا۔
(4)صدر اس بات کا جائزہ لیتا رہے گا کہ ٹرسٹ کے ممبران اپنے فرائض صحیح طور پر سر انجام دے رہے ہیں یا نہیں۔
(5)صدر اپنے سیکرٹری کے ذریعے اجلاس کو طلب کرنے اور تاریخ، دن اور جگہ تعین کرنے کامجازہوگا۔
جامعہ کےاغراض و مقاصد
(1) قرآن وحدیث کی تعلیم کااہتمام کیا جائے گا۔
(2)قرآن وسنت کی روشنی میں جدید علوم کی تدریس کااہتمام کرنا۔اور نئی نسل کو جدید علوم سے بھی آرستہ کرنا۔
(3)عربی زبان وادب کی حفاظت کرنااور اعلی پیمانے پر اس کی تدریس کرنا۔
تاکہ براہ راست کتاب وسنت سے استفادہ کرسکیں۔
(4)مذاہب اربعہ اور ان کے اصولوں کی تعلیم کا اہتمام کرنا۔
(5)اسلامی علوم کی پوری دنیا میں عموما اور عالم اسلام میں خصوصاً اشاعت کرنا۔
(6) پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے افراد تیار کرنا۔ اور عربی زبان کی طرف لوگوں کو ترغیب دینا ۔ایسے اولوا العزم صالح زہدو تقوی سے مزین علماء کرام کی کھیت تیار کرنا جو بغیر طمع ولالچ کے شرک و بدعت سے پاک دعوۃ اسلامیہ کی تجدید میں سرگرام عمل ہوں۔
(7) ایسے مصنفین تیار کرنا جو راسخ فی العلم ہوں۔اسلامی تہذیب وثقافت کے نمونے ہوں۔ اور اپنی تصانیف کے ذریعے عقائد صحیحہ کی نشر واشاعت، اصلاح نفوس
اور مخالفین اسلام کے رد میں قوی دلائل اور پسندیدہ اسلوب کے ساتھ اپنا کردار ادا کر سکیں۔
(8)باطل نظریات اور خلاف اسلام فکر سے نئی نسل کو آگاہ کرنا۔ اور انہیں صحیح اسلامی فکر سے آگاہی دینا۔
(9)مسلمانوں کی صفوں میں وحدت پیدا کرنا۔
(10)ان کے رجحان طبعی اور قابلیت کے مطابق ان کی عملی تربیت کی جائے۔
(11)عقیدہ توحید اور ختم نبوت کی دعوت دینا۔
(12) قیام امن کے لیے ہر ممکن تعاون کرنا شدت پسندی کی حوصلہ شکنی کرنا۔
(13)اسلامی علوم کے ساتھ پیش آمدہ جدید مسائل سے آگاہی اور عصری علوم کی تدریس کا اہتمام کرنا۔
(14)ایسے علماء تیار کرنا جو کہ کتاب وسنت پر مکمل عبور اور روزمرہ مسائل پر لوگوں کی صحیح رہنمائی کرسکتے ہوں۔
(15) نوجوانوں میں دینی بیداری وحمیت پیدا کرنا، الحاد اورخلاف اسلام شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا اور اس کی جگہ خالص اسلامی فکر کو اجاگر کرنا۔
(16)طلباء کی اعلی تعلیم کے ساتھ عملی و روحانی تربیت کرنا۔
(ماخذ: جامعہ سلفیہ تاریخ کے آئینہ میں ۔
مرتب: حافظ فاروق الرحمن یزدانی حفظہ اللہ)

●ناشر: حافظ امجد ربانی
●متعلم: جامعہ سلفیہ فیصل آباد

یہ بھی پڑھیں: خلاف اسلام ایکٹ کی تنفیذ اور حمایت کا اعلان کرنے والوں کو ووٹ ڈالنے کا حکم