کسی بھی معاملے، مثلا جنگ اور مسلح مزاحمت، کو مختلف زاویوں اور سطح پر دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک سطح پر یہ بات بالکل درست ہے کہ مظلوم قوم آخر کب تک ظلم کی چکی میں پسے گی۔ کسی وقت برداشت جواب دے جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں جوابی کاروائیاں سامنے آتی ہیں۔ مخالف فریق جب کسی قانون اور ضابطے کو تسلیم ہی نہیں کرتا اور اسے دنیا بھر کے ظالم قوتوں کی حمایت حاصل ہے تو فرسٹریشن اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

اسی جدوجہد اور مزاحمت کو دیکھنے اور سمجھنے کی ایک اور سطح بھی ہے کہ آخر اس وقت کیوں اور اس پیمانے پر کیونکر یہ سب کچھ ہو رہا ہے! ظاہر ہے اس کے بارے تجزیہ مختلف قیاس آرائیوں اور تخمینوں پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ مشرق وسطی کی سیاسی حرکیات اور اس خطے میں امریکہ سمیت دیگر بااثر ممالک کے اثر و نفوذ اور مفادات کے بنتے بگڑتے کھیل کو سمجھے بغیر محض جذباتیت کی عینک لگا کر اس وقت جاری کشمکش کو دیکھنا سادہ لوحی کے سوا کچھ بھی نہیں۔

جنگ اور تناؤ کی ٹائمنگ کس فریق کو سوٹ کرتی ہے اور اس سے کن قوتوں کے مفادات کو سیٹ بیک ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے ٹھنڈے دل سے غور و خوض کی ضرورت ہے۔ ہم نے اپنے ہاں کارگل سے لے کر ممبئی پر چڑھ دوڑنے کے مناظر جذباتیت کے عینک لگا کر دیکھے اور بھگتے ہیں۔ انہی دو مس ایڈوینچرز کو ایک وسیع تر کینوس پر دیکھا جائے تو جو کچھ سمجھ آتا ہے وہ مائیکرو سطح کی سوچ سے بالکل مختلف نتائج دیتا ہے۔

خطہ فلسطین میں اسی طرح حالیہ جنگ کو بھی تجزیہ نگار ایک تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں بہت سی ایسی سیاسی، سٹریٹیجک اور جغرافیائی پیش رفت ہو رہی ہیں۔ جس میں بڑی طاقتوں اور اتحادوں کے مفادات کی کشمکش کو نظر انداز نہیں کیا سکتا۔
صاحبو! جذبات بہت قیمتی ہوتے ہیں مگر ساتھ تھوڑی سے عقل بھی رہے تو اچھی بات ہے!

عزیز الرحمٰن