جہاد فلسطین کی بعض فقہی جہات
عرب ریاستوں کا ازراییل سے خُفیہ سمجھوتہ
مدخلی کائیں کائیں کا راز
(قسط اول)
مسئلہ فلسطین اس وقت اُمت کا اہم ترین مسئلہ ہے کیونکہ یہ اساس عقیدہ، فقہ جہاد اور اُمت مسلمہ کے خلاف عالمی صیہونی منصوبے کو بیک وقت ضمن میں لیے ہوئے ہے۔ اس کا حقیقی ادراک اُس وقت نہیں ہوسکتا جب تک قارئین ابراہیمی معاہدات(Abrahamic Accords) اور اعلان مکہ(Macca Declaration 2019) کی روح کو نہیں سمجھیں گے۔ ان سمجھوتوں میں عملاً اسلام کے واحد دین حق اور ہدایت انسانی کے واحد مصدر ہونے کے کُلی نفی کرکے حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے نام پر ادیان سماویہ(یہودیت، نصرانیت، اسلام) کی برابر حیثیت تسلیم کی گئی جس کی تعبیر امارات میں “بیت ابراہیمی” کی تعمیر سے کی گئی جہاں مسجد اور اہل کتاب کے معبد خانے یکساں حیثیت میں موجود ہیں۔
پھر مکہ اعلامیہ میں تو باقاعدہ تمام مذاہب کا برابر استحقاق تسلیم کرکے انسانیت کو اصل مانا گیا ہے، خصوصاً اس کی شق 22 یعنی Global Citizenship کو اگر آپ اقوام متحدہ کے (Universal Declaration of Human Rights) کی روشنی میں پڑھیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ اس میں اسلام بطور دین کی بجائے مکمل طور پر دین انسانیت کی بالادستی تسلیم کی گئی یہاں تک LGBTQ جیسے حقوق بھی global citizenship کی عالمی اصطلاح کا حصہ ہیں اور اسے منعقد کرنے والی وُہی عرب ریاست ہے جو موجودہ مدخلیوں کا خلیفة المسلمین ہے۔
شرمناک بات یہ کہ اعلامیہ مکہ میں (moderate Islam) اسلام کے نام پر جاری کیا گیا، جس کے بعد رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل محمد العیسی کی پُھرتیاں پوری دُنیا کے سامنے ہیں۔ خیر اس تمہید کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہ ان سمجھوتوں اور معاہدوں کا روح رواں اسرائیل ہے اور مقصد یہ ہے کہ عرب دُنیا کو نظریہ بالادستی اسلام اور شعائر جہاد سے محروم کرکے فلسطین سے جُدا کردیا جائے اور یہودی بے دخلی تو کُجا فلسطینی مسلمانوں کو آزاد ریاست کے خواب سے بھی محروم کردیا جائے۔ یہ بات چند روز قبل محمد بن سلمان بھی کہتا پایا گیا کہ اسرائیل سے مضبوط تعلقات میں بہت قریب آچُکے۔
Fox News کے ایک انٹرویو میں جب سوال ہوا کہ فلسطینیوں کی آزاد ریاست کے حل کا کیا ہوا جو عشروں سے سعودیہ کا موقف تھا تو م بی ایس نے اس کے ذکر سے فرار کا راستہ اختیار کیا۔ اُدھر متوازی فورم پر اسی طرح کی گفتگو نتِن یاہو کررہا ہے کہ سعودیہ سے فلسطین کے بارے معاملات طے ہونے کے قریب ہیں البتہ وہ صراحت سے کہتا ہے آزاد ریاست نہیں بلکہ فلسطینی ہمارے ما تحت زندگی گزاریں گے۔ نتِن یاہو نے دو مہینے ہہلے ہی اس بات کا اعادہ ایک انٹرویو میں کیا جس کا خلاصہ عمار خان ناصر نے چھ نکات میں کیا، اسے میں نیچے من و عن نقل کررہا ہوں، غور سے پڑھیے خصوصا آخری دو نکات ان عرب معاہدوں کے حوالے سے ہیں، اگرچہ اس میں ایران کی منافقت اور خُفیہ گُٹھ جوڑ بھی واضح دکھائی دے رہا ہے۔
نتِن یاہو مسئلہ فلسطین کی بابت کہتا ہے۔
1۔ اس قضیے کی اصل جڑ یہ ہے کہ فلسطینی، ایک یہودی ریاست کا وجود قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا یہ موقف اسرائیل کے قیام سے پہلے بھی رہا ہے اور بعد میں بھی، 67 کی جنگ سے پہلے بھی رہا ہے اور بعد میں بھی۔ اس لیے ریاست کی حدود کا تعین اصل مسئلہ نہیں، اصل مسئلہ یہودی ریاست کے وجود کو قبول نہ کرنا ہے۔
2۔ فلسطینیوں کا داخلی اختلاف صرف اس حوالے سے ہے کہ اسرائیل کو ختم کرنے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے یا سیاسی حکمت عملی سے یہ مقصد حاصل کیا جائے۔ حماس پہلے طریقے کی اور باقی فلسطینی دوسرے طریقے کے قائل ہیں، لیکن بنیادی مقصد دونوں کا ایک ہے۔
3۔ اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام اس لیے قابل عمل نہیں کہ فلسطینی اس ریاست کو مرکز بنا کر اسرائیل کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اسی لیے اسرائیل نے جب غزہ کا علاقہ خالی کر دیا تو حماس نے اقتصادی ترقی اور امن پر توجہ دینے کے بجائے غزہ کو اسرائیل کے خلاف دہشت گردی کا گڑھ بنا دیا۔ (یہی کچھ لبنان کا علاقہ خالی کرنے کے بعد ہوا جہاں حزب اللہ نے قبضہ کر لیا جو اسرائیل کو نقشے سے مٹانا چاہتی ہے)۔
4۔ اسرائیل جو بھی علاقہ خالی کرتا ہے، وہاں سے اسے جواب میں امن کے بجائے تشدد ہی ملتا ہے۔ اس لیے آزاد فلسطینی ریاست جیسے ہی قائم ہوگی، وہ ایران کی ایک پراکسی قوت بن جائے گی اور اسرائیل کی تباہی کے لیے کام کرنا شروع کر دے گی۔ پس دریائے اردن اور بحر متوسط کے درمیان واقع اس چھوٹے سے علاقے کو دو ریاستوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔
5۔ یہودیوں اور عربوں کو یہیں اکٹھے ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ہوگا۔ علاقے کی سیکیورٹی کی ذمہ داری اسرائیل کے پاس رہے گی۔ فلسطینیوں کو اپنے معاملات چلانے کے لیے مکمل اختیار دیا جا سکتا ہے، لیکن مکمل خود مختاری نہیں دی جا سکتی جس سے وہ اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکیں۔ اس لیے پورے علاقے کی سیکیورٹی کا بندوبست اسرائیل کے ہاتھوں میں رہنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور حل قابل عمل نہیں۔
6۔ جو یہودی آبادیاں 1967 کے بعد تعمیر ہو چکی ہیں، ان کو گرایا نہیں جا سکتا۔ یہ ناقابل عمل ہے۔ یہ بڑے بڑے رہائشی بلاک ہیں جن پر کثیر سرمایہ صرف ہوا ہے اور کوئی بھی ہوشمند شخص یہ نہیں سمجھتا کہ کسی حل تک پہنچنے کے لیے ان کو گرانا ضروری ہے۔ جیسے اسرائیل کے شہروں میں عرب یہودیوں کے ساتھ رہ رہے ہیں، اسی طرح عربوں کے علاقے میں یہودی بھی ان کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
7۔ اب تک عمومی سوچ یہ رہی ہے کہ فلسطینیوں کا مسئلہ حل کیے بغیر عرب دنیا کے ساتھ تعلقات نہیں بنائے جا سکتے۔ میری سوچ اس کے برعکس یہ ہے کہ عرب دنیا کے ساتھ تعلقات بنائے بغیر فلسطینی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ فلسطینی، عرب دنیا کا 2 فیصد ہیں۔ بجائے اس کے کہ 98 فیصد سے تعلقات کو 2 فیصد کے رحم وکرم پر چھوڑا جائے، براہ راست 98 فیصد عرب دنیا سے رابطے استوار کرنے چاہییں۔
8۔ ابراہیمی معاہدات کے ذریعے سے میں نے فلسطینیوں کو الگ رکھ کر کئی عرب حکومتوں کے ساتھ براہ راست تعلقات قائم کیے ہیں اور سعودی عرب کے ساتھ بھی کرنے جا رہے ہیں۔ فلسطینیوں کے ساتھ امن کی پیشگی شرط کا مطلب یہ ہے کہ کبھی امن نہ ہو، کیونکہ فلسطینی ہمیشہ توقع کرتے رہیں گے کہ عرب دنیا کی مدد اور پشت پناہی سے وہ اسرائیل کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن اگر عرب دنیا سے ہمارے تعلقات قائم ہو جائیں گے تو فلسطینیوں کی امید دم توڑ جائے گی اور وہ بھی اسرائیل کے ساتھ پرامن طور پر رہنا قبول کر لیں گے۔
آئندہ قسط میں ہم بعض مدخلی تلبیسات کا شرعی محاکمہ کریں گے۔ (جاری ہے)
ضیاء اللہ برنی رائے پوری