سوال (173)
جسمانی اعضاء عطیہ کرنے کا حکم کیا ہے اس موضوع پر فتویٰ یا کوئی تحریر یا کوئی مواد کسی کے علم میں ہو تو سینڈ کریں؟
جواب:
فتاویٰ جات میں آپ “حالات جدیدہ کے شرعی احکام” مولانا مفتی عثمانی رحمہ اللہ جو “معارف القرآن” کے مصنف اور مؤلف ہیں، ان کی کتاب ہے، اس کتاب کو دیکھیں ضرور رہنمائی ملے گی۔
فضیلۃ العالم عمر اثری حفظہ اللہ
نوازل کے باب میں محمد بن حسین جیزانی کی کتاب “فقہ النوازل” دیکھ لیں، اگر خاص طبی نوازل دیکھنے ہوں تو شیخ محمد بن محمد المختار شنقیطی کی “احکام الجراحة الطبية” دیکھی جا سکتی ہے۔
فضیلۃ العالم داؤد اسماعیل حفظہ اللہ
اس پر ایک قدیم رسالہ مولانا محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کا بھی ہے:’ انسانی اعضاء کی پیوندکاری اورانتقال خون کی شرعی حیثیت‘ جو کہ انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ شیخ نے اس میں عدم جواز کا موقف اختیار کیا ہے، اور مجوزین کے دلائل کا جواب دیا ہے۔
فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ
جسمانی اعضاء عطیہ کرنے کے بارے میں اختلاف ہے، حقیقی بات یہ ہے کہ ہم اپنے جسم کے خود مالک نہیں ہے، لہذا جگر یا گردہ کسی کو عطیہ کرنا یہ شرعاً صحیح نہیں ہے، رہا یہ مسئلہ کہ یہ انسان کی زندگی کا مسئلہ ہے، اگر انسان ایک گردے پر گذر بسر کرلیتا تو اللہ تعالیٰ کبھی بھی دو گردے عطا نہ کرتا ، علماء کرام کا ہو سکتا ہے کہ اختلاف ہو، لیکن صحیح مسئلہ یہ ہے، اس حوالے سے شیخ شنقیطی رحمہ اللہ نے بحث کی ہے کہ اعضاء کی پیوندکاری یعنی کسی کو اعضاء عطیہ کرنا درست نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ
شیخ محترم نے صحیح بات کی طرف رہنمائی کی ہے، البتہ جو اعضاء کو عطیہ کرنے سے روکتے ہیں، ان کا موقف مضبوط ہے، ان میں سے بعض ان اعضاء کو ڈونیشن کرنے کی اجازت دیتے ہیں، جو چیز لوٹ آتی ہے یا بڑھ جاتی ہے، جیسا کہ خون ہے، اس طرح جگر کا بھی ایک ٹکڑا اگر کاٹ دیا جائے تو جگر واپسی صحیح ہو جاتا ہے، اس کا بھی کام ہوجاتا ہے، پہلے نفی کردی جائے، لیکن اگر کوئی چارہ کار نہ ہو تو پھر وہ چیز عطیہ کی جا سکتی ہے جو بذات خود سیٹ ہو جائیں یا بڑھ جائیں۔ اس میں بھی بہتر یہ ہے کہ بغیر کسی قیمت کے یہ اعضاء عطیہ کیے جائیں، لیکن کوئی چارہ کار نہ ہو تو خریدے جا سکتے ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ