اسلامک یونیورسٹی میں استشراق کے حوالے سے ایم فل (حدیث) کا ایک محاضرہ ہوتا ہے۔ استشراق اور مستشرقین کے اہداف کے حوالے سے لیکچر ہو رہا تھا۔ استاد محترم دکتور انس حفظہ اللہ نے ایک واقعہ سنایا جو انتہائی عبرت انگیز ہے۔ بالخصوص ان لوگوں کیلئے جو سوچے سمجھے بغیر بس ترقی کا راز یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب سے تعلق ہونا ضروری ہے اور یورپی ممالک کی طرف تعلیم کی غرض سے سفر کرتے ہیں۔ گو کہ اس مسئلہ میں تفصیل ہے کہ ان ممالک کی طرف تعلیم بالخصوص جدید تعلیم کیلئے سفر کرنا کیسا ہے؟ اکثر عرب علماء تو عدم جواز کا فتویٰ دیتے ہیں سوائے یہ کہ بندہ دعوت دین کیلئے جائے، جبکہ ہمارے بلاد کے علماء اس شرط پر عام دنیاوی تعلیم کیلئے سفر کی اجازت بھی دے دیتے ہیں کہ بندہ اپنے اندر اپنے ایمان و دین کی حفاظت کی اہلیت رکھتا ہو۔
جو واقعہ میں ابھی رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ استاد دکتور انس صاحب نے بتایا کہ میرے پاس لوزیانہ ملک سے ایک شخص آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ ہمارے دادا ہندوستان سے لوزیانہ گئے تھے، ہمارے دادا ایک بہت بڑے عالم دین تھے اور انتہائی متواضع شخصیت تھے۔ ہمارے دادا لوزیانہ محض اس لیے گئے تھے کہ وہاں دین کی دعوت کا کام کریں گے۔ ان کے ہاتھ پر سینکڑوں لوگوں نے اسلام قبول کیا اور انہوں نے وہاں ایک شاندار مسجد تعمیر کی جبکہ اپنا گھر تک نہیں بنایا انہوں نے دین کا کام بے لوث ہو کر کیا، انہیں کسی قسم کا لالچ نہیں تھا، اس شخص نے آخر میں بتایا کہ اب ہم ان کے پوتے یعنی تیسری نسل وہاں پر موجود ہیں اور ہم وہاں پر کل 104 افراد ہیں جبکہ ان میں سے صرف چھ لوگ مسلمان ہیں باقی سارے کے سارے کافر ہو چکے ہیں۔ اللہ اکبر کبیرا۔

اس واقعے سے آپ اندازہ لگائیں کہ کفار کی محنت کتنی ہے؟ اور ان ممالک میں اگر آپ اپنی نسلوں کو آباد کرتے ہیں تو ان کا دین اور ایمان کتنا خطرے میں ہے, وہ بزرگ عالم دین تو دنیا کی لالچ سے کوسوں دور تھے، انہوں نے دین کی بہت زیادہ خدمت کی اور دعوت کا کام کیا لیکن جب وہ اس دنیا سے چلے گئے اور پیچھے خاندان میں کوئی نگران باقی نہ رہا تو اس ماحول سے متاثر ہو کر ان کی نسلوں کے افراد اپنا ایمان اور عقیدہ بھی کھو بیٹھے۔
یہ ایک دردناک واقعہ ہے جبکہ ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ اسلامی ممالک سے لوگ ترقی کے نشے میں وہاں گئے اور بعض تو خود اپنا بھی اور بعض کی نسلیں اپنا دین گنوا بیٹھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دین و ایمان کی حفاظت فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین۔

 ابوالطیب محمد نصیر علوی