کانپ اٹھا ہوں گلی کوچوں میں پانی دیکھ کر
چیختے چنگھاڑتے پانی میں فلک شگاف چیخیں ہیں، سیلاب کی بے رحم موجوں کے درمیان سسکتے تڑپتے ننّھے وجود بے کسی اور بے بسی پر مشتمل ایسے الم ناک مصائب میں گِھرے ہیں کہ برسوں تک ان کی ٹیسوں کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ آہ و بکا کچھ اتنی درد سے لدی ہیں کہ سننے والے لوگ اندر تک ٹوٹ گئے ہیں۔سرکش پانی کی خون آشام موجوں تباہی اور بربادی کو دیکھ کر دل دہل گئے ہیں، کیچڑ میں لپٹے بے حسی و حرکت پڑے مویشیوں کے وجود دیکھ انسانیت لرز گئی ہے۔ سیلاب کی طغیانیاں بہا لے گئیں سیکڑوں مویشیوں کو، عین سیلاب کی بپھری موجوں کے وسط میں پھنسے لوگ آج بھی کسی مسیحا کے منتظر، منہ زور لہریں ہزاروں لوگوں کے ہنستے بستے گھرانوں کو بہا لے گئیں، کالونیوں اور بستیوں کو بہا لے جانے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر چلیں تو بے شمار آنکھیں بے ساختہ اشکوں سے لد گئیں۔ ہنستے بستے گاؤں صفحہ ء ہستی سے مٹ گئے، زندگی کی رعنائیوں سے مزیّن شہروں کو سیلاب بلا خیز بہا لے گیا، پانی کی قاتل لہروں نے لاکھوں گھروں کو نیست و نابود کر کے رکھ دیا، چھوٹی چھوٹی بچیاں سیلاب کی تند و تیز لہروں کے درمیان سہمی سمٹی بیٹھی ہیں، ایک پُل کے ستون کے ساتھ لپٹے بچے کو بپھرے سیلاب نے اس طرح پٹخ کے مارا کہ سینے دکھ سے دہک اٹھے۔ شہزاد احمد کے اشعار ہیں۔
مَیں کہ خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کر
کانپ اٹھا ہوں گلی کوچوں میں پانی دیکھ کر
دن وہیں پر کاٹنا ہم کو قیامت ہو گیا
آن بیٹھے تھے جہاں صبحیں سہانی دیکھ کر
اُن کی زندگیاں اجڑ گئیں، اُن کی صبحیں اور شامیں کب کی ویران ہو چکیں۔ وہ چند دنوں کے اندر پہلے حرماں نصیب اور پھر ہجراں نصیب آ ٹھہرے، پانی کی سفاک موجوں نے ان کے گھر ہی نہیں بلکہ حسرتوں کو بھی خس و خاشاک کے ڈھیر میں بدل کر رکھ دیا۔ اُن کے اجالے چھن گئے، کتنی نوکیلی کرچیاں اُن کی روحوں میں کُھب گئیں! کتنی ہی آنکھوں کے سپنے ریزہ ریزہ ہو گئے اور کتنی ہی حسرتوں نے موت کی چوکھٹ پر دَم توڑ دیا۔ جگر جالندھری کا شعر ہے۔
حسرتوں کا ہو گیا ہے اس قدر دل میں ہجوم
سانس رستہ ڈھونڈھتی ہے آنے جانے کے لیے
اگر ہمارے سیاسی زعما کے ضمیروں میں زندگی کی خفیف سی رمق بھی موجود ہے تو یہ اشک فشاں منظر بھی دیکھ لیں کہ سیلاب زدہ علاقوں جب کھانا تقسیم کیا جاتا ہے تو بچوں کے چہرے خوشی سے دمک اٹھتے ہیں اور کتنے ہی لوگ ” مجھے بھی دو “ کی صدا لگاتے ہیں۔ اگر سنگلاخ دل سیاست دانوں کے دل اب بھی نہیں کسکمسائے تو اجڑے اور برباد ہو جانے والے لوگوں کی آہ و بکا کی ویڈیوز بھی دیکھ لیں، شاید ضمیر نامی جذبے میں تھوڑی سی جھرجھری پیدا ہو جائے۔ فرحت عباس شاہ نے سیاست دانوں سے مخاطب ہو کر دلوں کو جھنجوڑ دینے والا شعر کہا ہے۔
تمھارے بچے ہمارے ٹیکسوں پہ پَل رہے ہیں
ہمارے بچوں کو زرد سیلاب کھا گیا ہے
سیلاب کا عتاب بلکہ عذاب بڑھتا ہی جاتا ہے۔ یہاں عجب بے اختیار موسم ٹھہرے ہیں کہ کبھی تو ہم پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہوتے ہیں اور کبھی پانی کے ٹھاٹھیں مارتے طوفان ہمارا سب کچھ بہا لے جاتے ہیں۔
من حیث المجموع سیاست دانوں کی سنگ دلی سب کے سامنے ہے، کرسی کے حصول کے لیے لاکھوں افراد کا ہجوم اکھٹا کر لینے والے آج ساکت و جامد کیوں ہو چکے؟ وہ ہجومِ بے کراں اب سیلاب زدہ لوگوں کی مدد کے لیے جمع کیوں نہیں ہو رہا؟ وہ ” روٹی، کپڑا اور مکان“ کے نعرے کیا ہوئے؟ وہ ” سب سے پہلے پاکستان “ جیسے دل ربا نعرے کی طغیانی ماند کیوں پڑ گئی؟ وہ ایمان افروز غلغلے کہاں گم ہو کر رہ گئے ہیں؟ دیامر بھاشا ڈیم کے نعرے کیوں کھوکھلے ثابت ہوئے؟ داسو ڈیم کن بھول بھلیوں کا شکار ہو چکا؟ کالا باغ ڈیم کا نعرہ ء مستانہ کیوں فراموش کر دیا گیا؟
شاید تلخیوں میں ڈھلی ایسی تصویر تاریخ کے قرب و جوار میں بھی کسی نے نہیں دیکھی ہو گی کہ ایک بوڑھا باپ اپنے بازوؤں میں سکت نہ ہونے کی وجہ سے رسّی ڈال اپنے جوان بیٹے کی لاش کو سیلابی جگہ سے کھینچ رہا ہے۔ وہ مائیں کس طرح زندہ ہوں گی جن کے بیٹے سیلاب میں غرق ہو گئے؟ وہ باپ کس طرح سانس لیتے ہوں گے جن کے معصوم بچوں کی خواہشیں اور تمنائیں سیلابی پانی پر تیرتی نظر آ رہی ہیں؟
اِن سلگتی صعوبتوں کے ایام میں کچھ جماعتوں کا کردار بے حد تابناک ہے، خاص طور پر ملی مسلم لیگ اور الخدمت فاؤنڈیشن کے وجدان آفریں ایمان کے مناظر داد و تحسین کے مستحق ہیں کہ ان ایمان مآب لوگوں نے بے یقینی اور بے مروتی کو اپنے قریب تک پھٹکنے نہ دیا اور بلکتی آہوں کا درماں کرنے جا بہ جا پہنچے، ریسکیو 1122 کے نوجوان بھی پورے جوش و جذبے کے ساتھ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر سیلاب کے آلام میں مبتلا لوگوں کے درد کا درماں کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔
سیلاب کا یہ قہر جس نے رعنائیوں اور شہنائیوں سے مُزیّن کتنی ہی بستیوں کو زیرِ خاک دفن کر دیا، جس نے زندگی کی رونقوں سے مُرتّب درجنوں شہروں کو ویران اور سنسان بنا کر رکھ دیا، یہ سب اللہ کی طرف سے ابتلا اور آزمایش ہے۔ اے کاش! ہم رات کے کسی پہر چُپکے سے اٹھیں اور وضو کر کے اللہ کے حضور سجدے میں گر جائیں اور اپنی اپنی بدطینتی، بدخلصتی اور بدچلنی کی معافی اللہ سے مانگ لیں، ممکن ہے یہ قیامت خیز ساعتیں کم ہو جائیں، شاید کہ تیور بدلتے موسموں کی تندی اور تلخی کے یہ سارے کرب جلد کسی طرب میں بدل جائیں۔
(انگارے۔۔۔حیات عبداللہ)