جلیل القدر تابعی عطاء الخراسانی رحمہ اللہ (١٣٥ھ) منبرِ رسول ﷺ اور قبر مبارک کے درمیان ایک مجلس میں بیٹھے تھے۔ فرمانے لگے: ”میں نے ازواج مطہرات کے حجرات کو دیکھا ہوا ہے، اُن کے دروازے کھجور کے تنوں کے تھے جن کو سیاہ بالوں سے ڈھکا گیا تھا۔ اور جس وقت ولید بن عبدالملک کا امر نامہ پڑھا گیا کہ ان حجرات کو مسجد نبوی میں شامل کر دیا جائے، تو میں موجود تھا۔
پس میں نے اُس دن سے زیادہ لوگوں کو روتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ اور میں نے سعید بن مسیب رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ کی قسم، میری خواہش تھی کہ ان حجرات کو اسی طرح رہنے دیا جاتا۔ تاکہ اہلِ مدینہ کے بچے جب بڑے ہوتے، یا دوسرے علاقوں کے لوگ جب یہاں آتے، تو وہ رسول اللہ ﷺ کا گزر بسر خود دیکھتے، اور یہ اُن کے دنیا کی دوڑ میں شامل ہونے اور اس پر اِترائے پھرنے سے بے رغبتی کا باعث ہوتا۔”
مزید پڑھیں: حجرہ نبویہ تاريخ كے تناظر میں
جب عطاء اپنی بات کر چُکے تو عمران بن ابی انس رحمہ اللہ (١١٧ھ) گویا ہوئے : ”ان حجرات میں سے چار گھر اینٹوں کے تھے اور اُن کی چوکھٹ کھجور کے تنوں سے بنی تھی، جبکہ پانج گھر بغیر چوکھٹ کے کچی مٹی سے بنے ہوئے تھے، جن کے دروازوں کی جگہ بالوں کی جھالر لٹکائی گئی تھی۔ میں نے انہیں ناپا تو ان کی لمبائی تین ذراع (پانچ فٹ تقریبًا) اور چوڑائی ایک ذراع اور ایک بالشت کے قریب تھی۔ اور جہاں تک آپ نے لوگوں کے رونے کا ذکر کیا ہے، تو میں ایک ایسی مجلس میں تھا جس میں اصحابِ رسول ﷺ کے بیٹے موجود تھے، جن میں عبدالرحمن بن عوف کے بیٹے ابو سلمہ، سہل بن حنیف کے بیٹے ابو امامہ اور زید بن ثابت کے بیٹے خارجہ بھی تھے۔ وہ سب اس قدر روئے کہ اُن کی داڑھیاں آنسوؤں سے بھیگ گئیں۔ اور ابو امامہ فرمانے لگے: “کاش ان گھروں کو اسی طرح رہنے دیا جاتا، تاکہ لوگ بھی لمبے چوڑے گھر بنانے سے باز رہتے۔ اور وہ دیکھتے کہ اللہ اپنے نبی ﷺ کیلیے کتنی دنیا پر راضی ہوا ہے، جبکہ سب خزانوں کی چابیاں اُسی کے پاس ہیں!” (الطبقات الكبرى لابن سعد : ٤٩٩/١)
عبد العزیز ناصر