حجرہ نبوی سے مراد وہ گھر ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ رہا کرتے تھے، یہ گھر خلفاء راشدین (رضي الله عنہم) اور خلافت بنی امیہ کے ابتدائی دور تک مسجد نبوی کے شرق جنوب میں واقع تھا، بعد میں چل کر یہ گھر “حجرہ نبوی” سے مشہور ہوا؛ کیونکہ اسی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین عمل میں آئی تھی.
حجرہ نبوی متعدد مراحل سے گزرا ہے؛ جس کی مختصر تفصیل یہ ہے:
پہلا مرحلہ:
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے؛ تو امہات المؤمنین کے لئے گھروں کا انتظام فرمایا، ان میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا گھر مسجد نبوی سے متصل شرق جنوب میں واقع تھا.
جحرہ نبوی دو چیزوں پر مشتمل تھا:
1- گھر؛ جو مٹی سے بنا ہوا تھا، اور اس کی چھت کھجور کی ٹہنیوں سے بنی تھی، اور اس کا ایک ہی دروازہ تھا جو گھر کے شمال شرق کی طرف واقع تھا.
2- حجرہ (آگن)؛ جو گھر کے سامنے شمال کی جانب واقع تھا، اور تینوں اطراف (مشرق، مغرب، اور شمال) کھجور کی ٹہنیوں سے گھرے ہوئے تھے.
دوسرا مرحلہ:
سن گیارہ (11) ہجری میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو ان کی تدفین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں كى گئى؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: «مَا قَبَضَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُدْفَنَ فِيهِ » “اللہ نے ہر نبی کو موت اسی جگہ دی جہاں انہوں نے دفن ہونا پسند فرمایا” [جامع الترمذي(ح:1018)، وسنن ابن ماجہ(ح:1628)، شيخ البانى رحمہ الله نے اسے صحيح كہا ہے خدیکھیں: مختصر الشمائل المحمديۃ(ص:195)].
اور فرمایا: « لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ؛ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ » “یہود پر اللہ کی لعنت ہو؛ جنہوں نے اپنے انبیاء کرام (علیہم السلام) کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا”.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کے ضمن میں فرماتی ہیں: «لَوْلَا ذَلِكَ لَأُبْرِزَ قَبْرُهُ؛ خَشِيَ أَنْ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا » “اگر یہ(قبر کو سجدہ گاہ بنانے کی علت) نہ ہوتی تو آپ کی قبر بھی کھلی رکھی جاتی لیکن آپ کو یہ خطرہ تھا کہ کہیں آپ کی قبر کو بھی سجدہ گا نہ بنا لیا جائے”[صحيح البخاري(ح:4441)].
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین عمل میں آنے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے قبرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور گھر کے باقی حصوں کے درمیان ایک پردہ نصب کر دیا.
تیسرا مرحلہ:
سن تیرہ (13) ہجری میں جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا؛ تو حجرہ نبوی میں دو كام كئے گئے:
1- حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی حجرہ نبوی میں دفن کیا گیا، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دونوں قبروں اور گھر کے باقی حصوں کے درمیان پردہ نصب کر دیا.
2- حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حجرہ نبوی کے آگن کے تینوں اطراف (مشرق، مغرب، اور شمال) میں لگی کھجور کی ٹہنیوں کی جگہ ایک دیوار قائم کرا دی.
چوتھا مرحلہ:
سن تئیس (23) ہجری میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے انتقال کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے درخواست فرمائی کہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ کے ساتھ حجرہ نبوی میں تدفین کی اجازت دیں؛ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجازت دے دی، اور جب ان کا انتقال ہوا تو انہیں بھی حجرہ نبوی میں دفن کیا گیا.
اس کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تینوں قبروں اور گھر کے باقی بچے حصے کے درمیان ایک دیوار قائم کر دی؛ اس ديوار مىں ایک كھڑکی بھی تھی جس میں پردہ لگا ہوا تھا، چنانچہ بسااوقات بعض تابعین ان قبروں کو دیکھنے اور ان پر سلام عرض کرنے کے لئے ان سے اجازت طلب کیا کرتے تھے؛ اس كا ايك مقصد یہ بھی تھا کہ قبروں کے بارے میں انہیں سنت ہو کہ وہ اونچی نہیں ہوا کرتی ہیں.
تینوں قبروں کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے باقی بچے ہوئے حصے کی لمبائی پانچ اعشاریہ چوبیس (5.24) ميٹر، جبکہ چوڑائی زیرو اعشاریہ بہتّر (0.72) ميٹر تھی؛ جس میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تقریباً پینتیس (35) سال قیام فرمایا.
پانچواں مرحلہ:
جب لوگ کثرت سے قبروں پر سلام عرض کرنے کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اجازت طلب کرنے لگے تو انہوں نے وہ كھڑکی بند کرادی.
چھٹا مرحلہ:
سن اٹھاون (58) ہجری میں جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو ہجرہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) کا دروازہ (جو شمال شرق میں واقع تھا) بند کر دیا گیا.
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وبعدها – أي: وفاة عائشة رضي الله عنها – كانت مغلقة إلى أن أدخلت في المسجد؛ فسد بابها وبني عليها حائط آخر » ” اور ان کے بعد یعنی: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد ان کا حجرہ بندہ تھا یہاں تک کہ وہ (حصہ) مسجد کے ضمن میں شامل کر دیا گیا؛ اور اس پر ایک دیوار بنا دی گئی[مجموع الفتاوى (27/ 328)].
ساتواں مرحلہ:
مذکورہ صورت میں حجرہ نبوی خلفاء راشدین (رضی اللہ عنہم) اور خلافت بنی امیہ کے ابتدائی دور تک باقی رہا، پھر سن اٹھاسی (88) ہجری میں خلیفہ ولید بن عبد الملک نے والی مدنیہ منورہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو تین باتوں کا حکم دیا:
1- مسجد نبوی کو توڑ مشرق، مغرب، اور شمال کی جانب سے اس کی توسیع کی جائے.
2- حجرہ عائشہ (جس میں تینوں قبروں ہیں) میں مٹی سے بنی دیوار کو توڑ کر کالے پتھروں سے دوبارہ اس کی تعمیر کی جائے، اور اس کی چھت لکڑیوں سے بنائی جائے.
چنانچہ وہ دیوار کچھ اس طرح سے تعمیر کی گئی کہ حجرہ نبوی کے لئے کوئی دروازہ رکھا گیا اور نہ ہی کوئی کھڑکی چھوڑی گئی، اور کسی کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے دونوں ساتھیوں (حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما) کی قبروں تک پہنچ سکے [دیکھیں: مجموع الفتاوی لابن تیمیہ (27/ 323)].
سمہودی رحمہ ا للہ فرماتے ہیں: «ولم نجد للبيت الداخل بابا أصلاً، ولا موضع باب » ” اور ہم نے داخلی گھر (حجرہ نبوی) کے لئے سرے سے کوئی دروازہ پایا اور نہ ہی دروازے کی جگہ”[وفاء الوفاء (2/ 307)].
3- حجرہ عائشہ کی دیوار سے متصل ایک خماسی دیوار اس طرح تعمیر کی جائے کہ اس کا شمالی حصہ مثلث کی شکل میں ہو؛ تاکہ کوئی نہ گھر کے اس آگن میں نماز پڑھ سکے، اور نہ ہی اس کی طرف منہ کر کے (قبلہ بنا کر) کوئی نماز ادا کر سکے، اور اس کے لئے اس مثلث دیوار کی تعمیر اس طرح کی جائے کہ وہ قبلہ کی دائیں جانب سے ذرا مائل ہو.
اس طرح سے پہلی بار خلیفہ ولید بن عبد الملک کے دور میں جب اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی وفات ہو چکی تھی، حجرہ نبوی کو مسجد نبوی کے حصے میں شامل کیا گیا، اس وقت موجود حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ جیسے علماء کرام نے اس کی تردید بھی کی، اس کے باوجود خلیفہ وقت کے حکم سے یہ کام انجام دیا گیا.
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ایک بڑے عالم تھے، اور سنت کے بڑے پابند تھے، مگر وہ خلیفہ وقت کے حکم کے بھی پابند تھے؛ لہذا بحیثیت والی مدینہ منورہ ان ہی کی نگرانی میں یہ کام انجام دیا گیا، مگر اپنی ذہانت و فطانت اور دینی شعور سے حجرہ نبوی کی شکل ایسی بنادی کی کہ مسجد نبوی کے حصے میں شامل ہونے کے باوجود کوئی اس کی طرف منہ کر کے نماز نہیں پڑھ سکتا ہے.
اسی کے بارے میں علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَلَقَدْ نَهَانَا أَنْ نُصَيِّرَ قَبْرَهُ عِيدًا حِذَارَ الشِّرْكَ بِالرَّحْمَنِ
وَدَعَا بِأَنْ لاَ يُجْعَلَ القَبْرُ الَّذِي قَدْ ضَمَّهُ وَثَنًا مِنَ الأَوْثَانِ
فَأَجَابَ رَبُّ العَالَمِينَ دُعَاءَهُ وَأَحَاطَهُ بِثَلاَثَةِ الجُدْرَانِ
حَتَّى اغْتَدَتْ أَرْجَاؤُهُ بِدُعَائِهِ فِي عِزَّةٍ وَحِمَايَةٍ وَصِيَانِ
[الكافيۃ الشافيۃ (ص: 252- 253)]
آٹھواں مرحلہ:
خلیفہ متوکل (232 ھ – 247ھ) کے زمانہ میں حجرہ نبوی کی دیوار کے نچلے حصے کو تقریباً ایک ميٹر تک سنگ مر مر سے بنایا گیا.
نواں مرحلہ:
سن پانچ سو اڑتالیس (548) ہجری میں خلیفہ مقتفی کے زمانہ میں حجرہ نبوی کی دیوار کے نچلے حصے کو تقریباً دو ميٹر تک سنگ مر مر سے بنا دیا گیا.
دسواں مرحلہ:
سن آٹھ سو اکاسی (881) ہجری میں سلطان اشرف قَايِتبْايْ کے زمانہ میں حجرہ نبوی کی بعض دیواروں کو توڑ کر از سر نو تعمیر کیا گیا؛ جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
أ- خارجی دیوار؛ اس میں سے مشرقی جانب کے ایک حصے، اور اسی سے متصل شمالی جانب کے ایک زاویے کو توڑا گیا.
ب- داخلی دیوار؛ اس کے بعض حصوں کو اس طرح سے توڑا گیا:
1- مشرقی و شمالی جانب میں واقع پوری دیوار توڑی گئی.
2- جنوبی دیوار کا ایک حصہ توڑا گیا؛ جو مشرق کی طرف واقع ہے.
3- مغربی جانب کا ایک حصہ توڑا گیا؛ جو شمالی جانب واقع ہے.
4- جنوبی و مغربی جانب میں باقی بچی دیوار کے اوپری حصے کو تقریباً دو اعشاریہ تیس (2.30) ميٹر تک توڑا گیا.
تعمیری مرحلہ:
1- دونوں دیواریں:
أ- پہلے جن پتھروں سے تعمیر کیا گیا دوبارہ ان ہی پتھروں کو تعمیر نو کے لئے استعمال کیا گیا.
ب- مشرقی جانب میں واقع دونوں دیواروں کے درمیان جو فاصلہ تھا اسے بند کیا گیا.
ج- جنوبی جانب میں واقع دونوں دیواروں کے درمیان جو فاصلہ تھا اسے بھی بند کیا گیا.
ھ- شمالی جانب میں واقع دیوار کے ثلث حصے کو ذرا الگ کیا گیا تاکہ ستون آسانی سے داخل ہو سکے.
و- از سر نو حجرہ نبوی کے نچلے حصے کو سنگ مر مر سے بنایا گیا.
2- چھت:
أ – سن ایک ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا گھر بھی تعمیر فرمایا؛ جس کی چھت کھجور کی ٹہنیوں سے بنی تھی.
ب – سن اٹھاسی (88) ہجری میں خلیفہ ولید بن عبد الملک کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے مٹی سے بنی دیواروں کو توڑ کر کالے پتھروں سے دوبارہ تعمیر کی، اور کھجور کی ٹہنیوں سے بنی چھت کی جگہ لکڑیوں کی چھت بنائی.
3 – گنبد :
أ- سن چھ سو اٹہتر (678) ہجری میں شاہ قلاوون صالحی نے ایک لکڑی کا بڑا گنبد تعمیر کیا.
ب- سن آٹھ سو اکاسی (881) ہجری میں شاہ قَايِتبْايْ نے اس گنبد کی مرمت کی.
ج- سن آٹھ سو چھیاسی (886) ہجری میں آگ لگنے سے یہ گنبد بھی جل گیا.
د- سن آٹھ سو ستاسی (887) ہجری میں شاہ قَايِتبْايْ نے اسے دوبارہ نئے سرے سے بنایا.
ب- سن بارہ سو اٹھائیس (1228) ہجری میں سلطان محمود ثانی نے اس کی مرمت کی.
ج- سن بارہ سو تینتیس (1233) ہجری میں سلطان محمود ثانی نے گنبد کے اوپری حصے کو توڑ کر از سر نو تعمیر کیا، اور اسے نيلے رنگ سے رنگ دیا.
د- سن بارہ سو ترپن(1253) ہجری میں سلطان محمود ثانی نے پورے گنبد کو سبز رنگ سے رنگ دیا.
اس گنبد کے نیچے یہ مکانات شامل ہیں:
أ- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا پورا گھر اور آگن کا بیشتر حصہ.
ب- حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا گھر.
ج- رياض الجنۃ کا تقریباً تین ميٹر.
د- مغربی سمت میں واقع آگن کا تقریباً تین ميٹر.
گیارہواں مرحلہ:
آگ لگنے کے بعد سن آٹھ سو چھاسی (886) ہجری میں ملک قَايِتبْايْ نے دوبارہ مرمت کرائی، اور حجرہ کی ساری دیواروں کو سنگ مر مر سے بنا دیا.
ان تینوں دیواروں کے بعد الگ سے ایک حاجز قائم کیا گیا ہے؛ جس کی تفصیل یہ ہے:
1- سن چھ سو انٹرسٹ (668) ہجری میں شاہ ظاہر بِيبَرْس نے ان تینوں دیواروں کے ارد گرد لکڑی سی بنی ساڑھے تین ميٹر کی ایک دیوار قائم کی.
2- سن چھ سو چورانوے (694) ہجری میں شاہ عادل زین الدین نے اس لکڑی کی دیوار کے علاوہ ایک اور لکڑی کی دیوار بنا دی.
3- سن آٹھ سو چھاسی (886) ہجری میں مسجد نبوی میں آگ لگی؛ جس کی وجہ سے وہ دنوں لکڑی كى دیواریں نظر آتش ہو گئیں، چنانچہ شاہ قَايِتبْايْ نے جنوبی جانب (جہاں سے آج کل لوگ سلام عرض کرتے ہیں) تانبے سے بنا ایک حاجز قائم کیا، اور باقی جہات میں لوہے سے بنے حاجز کو سبز رنگ سے رنگا کر نصب کیا.
4- تیرہویں صدی ہجری میں سلطان عبد المجيد خان نے سن بارہ سو پینسٹھ (1265) ہجری تا بارہ سو ستتر (1277) ہجری کے درمیان مسجد نبوی کی توسیع کا کام کرایا، اور اس دوران حجرہ نبوی کی جنوبی سمت میں لگے تانبے کے حاجز کو از سر نو نصب کیا؛ جو آج بھی موجود ہے.
بروقت جنوبی و شمالی سمت میں جو حواجز لگے ہوئے ہیں ان کے درمیان اور قبر نبوی کے درمیان فاصلہ کچھ اس طرح ہے:
أ- جنوبی سمت سے سلام پیش کرنے والے اور قبر نبوی کے درمیان کل سات (7) ميٹر کا فاصلہ ہے.
ب- شمالی سمت میں نماز پڑھنے والے اور قبر نبوی کے درمیان کل سترہ (17) مٹر کا فاصلہ ہے.
لہذا اگر کوئی یہ شخص یہ گمان کرے کہ وہ اس جگہ سے قبر نبوی کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھ رہا ہے تو اس کا یہ مقصد کسی بھی صورت میں پورا نہ ہوگا؛ کیونکہ اس کے درمیان اور قبر نبوی کے درمیان ایک لمبا فاصلہ ہے، ساتھ ہی متعدد دیواریں بھی قائم ہیں.
اور اس طریق پر اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا قبول فرمائی: « اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِي وَثَنًا يعبد » “ائے اللہ میری قبر کو بت نہ بنا دینا کہ اس کی عبادت کی جائے” [مسند أحمد(ح:7358)، شيخ البانى رحمہ الله نے اسے صحيح كہا ہے، دیکھیں: صحيح مشكاۃ المصابيح(ح: 750)] .
اگر یہ اعتراض ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بالآخر مسجد کے اندر ہی تو ہے؟
أولاً: ہر وہ مسجد جس میں قبر ہو دو حال سے خالی نہیں:
أ- یا تو قبر کی خاطر مسجد تعمیر کی گئی ہو.
ب- مسجد کے لئے قبر داخل کی گئی ہو.
جس مسجد میں بھی قبر ہے وہ ان دونوں صفتوں سے خالی نہیں ہو سکتی ہے.
اور حق یہ ہے کہ نہ قبر کی خاطر مسجد تعمیر کی جا سکتی ہے، اور نہ مسجد کے لئے قبر داخل کی جا سکتى ہے.
بنا بریں مسجد اور قبر دونوں ایک جمع نہیں ہو سکتی ہیں، جیسا کہ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “دین اسلام میں مسجد اور قبر (ایک ساتھ) جمع نہیں ہو سکتی ہیں “[زاد المعاد(3/ 501)].
ثانياً: موجودہ صورت میں مسجد نبوی سے متصل قبر نبوی کے پائے جانے سے یہ امر لوگوں کے درمیان مشتبہ ہو گیا ہے؛ جس کی حقیقت یہ ہے:
أ- مسجد نبوی کی توسیع کے وقت حجرہ نبوی کو شامل کیا گیا تھا؛ جس کی وجہ سے قبر بھی شامل ہو گئی؛ کیونکہ مسجد نبوی توقیفی ہے، اور قبر نبوی بھی توقیفی ہے، دونوں کو اس جگہ سے ہٹایا نہیں جا سکتا ہے.
گویا قبر نبوی کو مسجد نبوی میں شامل کرنے کا اصلا قصد ہی نہیں کیا گیا تھا.
ب- صرف حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو شامل نہیں کیا گیا تھا، بلکہ دیگر امہات المؤمنین کے حجرے بھی شامل کئے گئے تھے؛ لہذا اس سے بھی واضح ہے کہ صرف حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو خاص طور پر شامل کرنے کا ارادہ نہیں کیا گیا.
ج- امہات المؤمنين کے حجروں کو شامل کرنے کے پیچھے قبر نبوی کو شامل کرنے کا اصلاً قصد ہی نہیں کیا گیا، بلکہ ان حجروں کو مسجد نبوی کی توسیع کی غرض سے شامل کیا گیا.
ثالثاً: مسجد کی یہ توسیع تابعین رحمہم اللہ کے دور میں ہوئی:
أ- اس زمانے میں مدینہ منورہ میں کوئی صحابی موجود نہ تھے.
ب- بعض تابعین نے اس پر سخت نکیر کی.
ج- سلف و خلف کے ہر دور میں قبر نبوی کی مشرقی جانب توسیع کا کام اس خوف سے انجام نہیں دیا گیا کہ کہیں قبر مسجد کے اندر نہ آجائے.
اور یہی وجہ ہے کہ شاہ عبد اللہ پروجیکٹ کے تحت مسجد نبوی کے جنوبی سمت، اور قبر نبوی کی مشرقی جانب کو توسیع میں شامل نہیں کیا گیا [دیکھیں: شرح کتاب التوحید لسندی(ص:426 – 428)].

نوٹ: یہ تاريخى معلومات مسجد نبوى كے امام وخطيب داکٹر عبد المحسن القاسم/ حفظہ اللہ کی کتاب “المدينة المنورة، فضائلها، والمسجد النبوي، والحجرة النبوية” سے مستفاد ہیں۔

ترجمہ و تلخیص: عبید اللہ الباقی اسلم