“کاتب وحی سیدنا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ”

صحابی ہونے کا مقام:
حضرتِ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لا تسبوا أصحابي فلو أن أحدكم أنفق مثل أُحُدٍ ذهباً ما بلغ مدَّ أحدهم ولا نصيفه
(بخاری: 3673، مسلم: 2540)

ترجمہ: “میرے صحابہ کو برا مت کہو، اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو ان کے ایک مُد یا اس کے آدھے کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔”
یاد رہے کہ سیدنا معاویہؓ صحابی ہیں، کاتبِ وحی ہیں، نبی اکرم ﷺ کی صحبت یافتہ ہیں، اس لیے ان پر تنقید یا گستاخی کسی حال میں جائز نہیں۔
صحابہ کرامؓ پر اللہ تعالیٰ کی رضامندی:
اللہ تعالیٰ کا فرمان:

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ(سورت التوبہ:100)

ترجمہ: “اور جو لوگ سبقت لے گئے مہاجرین اور انصار میں سے اور جنہوں نے ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔”
اللہ تعالیٰ نے ان سے رضا کا اعلان فرما دیا، تو کسی کو کیا حق ہے کہ ان پر طعن کرے۔

سیدنا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ صحابہ کرام کی نظر میں:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ایک وتر پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نےفرمایا:

أَصَابَ،إِنَّهُ فَقِيهٌ (صحیح البخاری:3765)

انہوں نے جو بھی عمل کیا ہے وہ درست ہے وہ تو فقیہ ہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں،مخلص ساتھی ہیں آپ کے۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

ما رأيت أحدا بعد عثمان أقصى بحق من صاحب هذا الباب يعني معاوية (تاریخ دمشق 59/161)

ترجمہ: میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر حق کے مطابق فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔
سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کرنبوی نماز پڑھنے والاکوئی نہیں دیکھا۔(الفوائد المتقاۃللسمرقندی:67)
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:

مَا زَالَ بِي مَا رَأَيْتُ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ فِي الْفِتْنَةِ، حَتَّى إِنِّي لَأَتَمَنَّى أَنْ يَزِيدَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مُعَاوِيَةَ مِنْ عُمْرِي فِي عُمْرِهِ (الطبقات لابن ابی عروبہ الحرانی:41)

ترجمہ: فتنے کے دور میں ہمیشہ میری یہ تمنا تھی کہ اللہ تعالیٰ میری عمر،معاویہ کو لگا دے۔

سیدنا معاویہؓ کی عدالت اور فقاہت:
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“وَكَانَ مُعَاوِيَةُ مِنْ أَجْوَدِ الْمُلُوكِ، وَكَانَ فِيهِ دِينٌ وَعَدْلٌ”

(منہاج السنہ، ج 4، ص 538)
ترجمہ: “معاویہ ان بہترین حکمرانوں میں سے تھے، ان میں دین داری اور عدل تھا۔”

کیا ایسی تنقید جائز ہے؟
اہل السنہ والجماعہ کے نزدیک تمام صحابہ کرام عادل ہیں، اور ان کے اجتہادی فیصلوں پر زبان درازی کرنا حرام ہے۔

امام اہل السنہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“إذا رأيت الرجل يذكر أصحاب رسول الله ﷺ بسوء فاتهمه على الإسلام”
(اللالکائی، شرح اصول اعتقاد اہل السنت والجماعۃ: ١٥٩٧)

ترجمہ: “جب تم کسی کو دیکھو کہ وہ اصحابِ رسول ﷺ کو برا کہتا ہے، تو اس کے اسلام پر شک کرو۔”

امام ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“إذا رأيت الرجل ينتقص أحداً من أصحاب رسول الله ﷺ فاعلم أنه زنديق.” (الکفایۃ للخطيب البغدادی، ص: 97)

ترجمہ: “جب تم کسی کو دیکھو کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے کسی بھی صحابی کی توہین کرتا ہے، تو جان لو کہ وہ زندیق (منافق، دین دشمن) ہے۔”

عظیم محدث امام ابن المبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“من استخفّ بأصحاب رسول الله ﷺ فهو على غير الإسلام.”
(اللالکائی، رقم: ١٦٠١)

ترجمہ: “جو شخص رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کی توہین کرے، وہ اسلام پر نہیں ہے۔”

امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“من شتم أحداً من أصحاب النبي ﷺ جلد، وعوقب، وأدِّب، وقتل إن شتمهم على الكفر.”
(الصارم المسلول، ابن تیمیہ، ص: ٥٧٢)

ترجمہ: “جو کسی صحابی کو گالی دے، اس پر حد جاری کی جائے، سزا دی جائے، اور اگر کفر کی بنیاد پر سب و شتم کرے تو قتل کیا جائے۔”

شارح صحیح مسلم امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“الصحابة كلهم عدول، من لابس الفتن منهم فاجتهد، والمجتهد المصيب له أجران، والمخطئ له أجر.”
(شرح مسلم، مقدمہ، باب بيان حال الصحابة)

ترجمہ:
“تمام صحابہ عادل ہیں، جنہوں نے فتنوں کے وقت اجتہاد کیا، ان میں جو صحیح تھے ان کے دو اجر اور جو خطا پر تھے ان کے لیے بھی ایک اجر ہے۔”

اسلام ایک مکمل دین ہے، جو عدل، دیانت، اور حق گوئی کا درس دیتا ہے۔ اور جب بات صحابہ کرامؓ کی ہو، تو یہ عقیدہ اہلِ السنہ والجماعت کا متفقہ اصول ہے کہ:
“تمام صحابہ عادل ہیں، اور ان پر طعن کرنا گمراہی ہے۔”
مگر افسوس! بعض اہلِ علم کے قلم اور زبان سے ایسے الفاظ ادا ہو گئے جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کی شان کے خلاف تھے۔

مگر کیا غلطی کا ازالہ ممکن ہے؟
جی ہاں! اسلام توبہ کا دروازہ بند نہیں کرتا۔ مگر شرط یہ ہے کہ:
“جس طرح گناہ اعلانیہ ہوا ہو، توبہ بھی اعلانیہ ہونی چاہیے۔”
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ(البقرہ:160)

ترجمہ: “مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی، اصلاح کی اور بات کو کھول کر بیان کیا، تو میں ان پر توبہ قبول کروں گا۔”

اعلانیہ توبہ کیوں ضروری ہے؟
کیونکہ گستاخی اعلانیہ کی گئی تھی۔
اس سے ہزاروں پڑھنے والوں کے دلوں میں صحابہ کرام کے متعلق غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔
اگر توبہ خفیہ رکھی جائے، تو جن لوگوں نے گستاخی پڑھی تھی، ان کے دل صاف نہ ہوں گے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“جو بدعت اعلانیہ کرے، اس کی توبہ بھی علانیہ ہونی چاہیے، تاکہ اس کے شر کا ازالہ ہو سکے۔” (مجموع الفتاویٰ)

اب مولانا امیر حمزہ صاحب کو چاہیے کہ:
1. صاف الفاظ میں اعتراف کریں کہ ان سے صحابی رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہوئی۔
2. قرآن و سنت اور اجماعِ امت کے مطابق صحابہ کرام کی تعظیم کو تسلیم کریں۔
3. عوام الناس کے سامنے اعلانیہ توبہ کریں، ویڈیو یا تحریری بیان کے ذریعے۔
4. سابقہ کالم کی وضاحت اور تردید خود جاری کریں۔
ہم امید واثق کرتے ہیں:
کہ مولانا صاحب علم و تقویٰ کے تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے، صحابہ کرامؓ جیسی پاکیزہ جماعت کے بارے میں اپنی لغزش پر نادم ہوں گے، اور توبہ و رجوع کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا اور امت کا اعتماد حاصل کریں گے۔

آخر میں یہ بات یاد رکھیں:
“جو صحابہ پر طعن کرے، وہ اپنے دین کی جڑ کاٹ رہا ہے، اور جو صحابہ کرام کی تعظیم کرے، وہ ایمان کی جڑ کو مضبوط کر رہا ہے۔

از قلمِ یاسر مسعود بھٹی
خادمُ العلم والعلماء

یہ بھی پڑھیں:کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تیار کردہ مٹی کے زائد حصے سے شیخین رضی اللہ عنہما کی تخلیق ہوئی؟