خدا کا قانون جزاء وسزا اور سقوط مشرقی پاکستان
سید ابوبکر غزنوی رح کی ایک تقریر سے کچھ اقتباسات
یہ تقریر سقوط مشرقی پاکستان سے چند ہفتوں بعد یعنی دو فروری 1972ء کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں بعنوان “خدا کا قانون جزاء وسزا” کی گئی تھی۔ موجودہ حالات کے تناظر میں ہم اہل پاکستان کے لیے اس تقریر میں عبرتوں اور نصیحتوں کا بہت سا سامان موجود ہے۔ سید صاحب نے اس تقریر میں سقوط مشرقی پاکستان کی شکل میں ہم پر اترنے والے عذاب کے جو اسباب بیان کیے تھے، افسوس یہ ہے آج کم وبیش سینتالیس برس بعد بھی ہم اپنی ان سیاہ کاریوں سے باز آنے کے بجائے ان میں پہلے سے کہیں زیادہ ترقی کرچکے ہیں۔
اقتباسات
“ہم نے دنیا جہاں کی ناپاکیاں اس خطۂ زمین پہ اکٹھی کیں اور اس کا نام پاکستان رکھ دیا”۔
,,عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہر حکومت یہ اعلان کرتی رہی کہ ‘ہمارا آئین قرآن وسنت کے منافی نہیں ہوگا’ اس فقرے کے تیور دیکھیے کس قدر منافقانہ ہیں۔ اگر دل میں کھوٹ نہ ہوتا تو یہ فقرہ یوں ہوتا ‘ہمارا آئین قرآن وسنت کے عین مطابق ہوگا”۔
“مشرقی پاکستان کا سقوط جنگ احد اور جنگ حنین کی طرح آزمائش نہیں بلکہ عذاب تھا”۔
“ہماری نئی پود نے اسلام کا نام یا تو حکمرانوں سے سنا ہے یا اپنے محلے کے نیم خواندہ مولوی سے۔ اس کا بدیہی نتیجہ یہ ہوا کہ نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اسلام یا تو (half educated) ہونے کا نام ہے یا (exploitation) کا”۔
“سقوط مشرقی پاکستان پر ہمارے صحافیوں نے لکھا کہ ‘حادثۂ کربلاء ہوگیا ہے’ تم اس امام الشھداء کا ذکر کرتے ہو جس نے اپنے سارے گھرانے کو خاک و خون میں تڑپتے دیکھا لیکن ہتھیار نہ ڈالے. نوے ہزار تندرست و توانا آدمی ہتھیار ڈالیں اور کہیں کہ حادثۂ کربلا ہوا ہے؟
“ملک کا نام اسلامک ریپبلک رکھنا آسان کام تھا لیکن جب ارباب حل و عقد سے کہا جاتا ہے کہ شراب کی کشید اور درآمد پر پابندی لگائیے تو کہتے ہیں کہ یہ تو تنگ نظری کی بات ہے”۔
“آج جب ہم اس ملک کے دانشوروں سے کہتے ہیں کہ سقوط مشرقی پاکستان اللہ کا عذاب تھا، ہوش میں آؤ تو وہ زیرلب طنزا مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ‘قوموں کو کبھی فتح ہوتی ہے، کبھی شکست، اس کا عذاب سے کیا تعلق”۔
“خدا کہتا ہے جب کوئی قوم عذاب کو عذاب ماننے کے لیے تیار نہ ہو تو ہم اس کو ایک دوسرا تھپڑ رسید کرتے ہیں اور اس کے قومی وجود کو نیست ونابود کر دیتے ہیں”۔
“ہمارے ذرائع ابلاغ کا مقصد قومی انا کی بیداری اور ملی کردار کی تعمیر تھا لیکن وہ رقص وسرود اور طاؤس و رباب میں وقت برباد کر رہے ہیں۔ حالانکہ سقوط مشرقی پاکستان کا غم اتنا گہرا ہے کہ ہماری غریب عوام کو اپنی عریانی اور بھوک بھول گئی ہے، کوئی پائل کی کھنک اور کوئی پازیب کی جھنکار ان کے زخم کا اندمال نہیں کر سکتی”۔
“ہمارے دانشور اور سیاست دان کہتے ہیں کہ ‘آدھا ملک چھن گیا تو کیا ہوا؟ ہم سے نوحہ گری نہیں ہوتی’ نوحہ گری کے تو ہم بھی قائل نہیں لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ کیا نوحہ گری اور رقص و سرود کے درمیان متانت وسنجیدگی کے ساتھ ملک وملت کی تعمیر کا کوئی راستہ نہیں؟
“میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ ملک کا یہ بچا کھچا حصہ جو باقی رہ گیا ہے، خدا کا عذاب اس پر بھی منڈلا رہا ہے۔ وہی عذاب جس کی زد میں بڑے بڑے ذاکر اور صوفی بھی آجاتے ہیں، خدا فرشتوں سے کہتا ہے کہ ان کو بھی پیٹو، ان کے آس پاس ملک میں آگ لگی ہوئی تھی اور یہ مسجدوں اور گھروں میں آرام سے بیٹھے ذکر و فکر کی لذتیں اٹھا رہے تھے۔
اور آخر میں ایک ضروری نوٹ
سید صاحب کی اس تقریر کے یاد آنے کا باعث یہ ہوا کہ سید صاحب کے فرزند جناب حماد غزنوی صاحب نے موجودہ حالات پر ایک کالم لکھا ہے جو محترم امجد سلیم علوی صاحب کے توسط سے مجھ تک پہنچا. اس کالم میں سید صاحب کے فرزند نے اپنے والد گرامی کا ایک واقعہ ذکر کرتے ہوئے ان کے مندرجہ ذیل الفاظ نقل کیے ہیں:
سقوط ڈھاکہ ہماری بد اعمالیوں کی سزا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میں ٹی وی پہ آ کر اسے معرکۂ بدر وحنین سے تشبیہ دوں۔
یہ جناب حماد صاحب کا وہم معلوم ہوتا ہے. سید صاحب نے اس موقع پر جنگ بدر کا نام نہیں لیا ہوگا بلکہ جنگ احد اور جنگ حنین کا ذکر کیا ہوگا کیونکہ جنگ بدر میں تو اسلام اور مسلمانوں کو کھلی فتح نصیب ہوئی تھی جبکہ جنگ احد اور جنگ حنین میں آزمائش کا سامنا کرنا پڑا تھا. علاوہ ازیں سید صاحب کی تقریر کے جو صفحات یہاں دیے گئے ہیں، ان میں بھی سید صاحب نے جنگ احد ہی کا ذکر کیا ہے۔

محمد سرور