کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تیار کردہ مٹی کے زائد حصے سے شیخین رضی اللہ عنہما کی تخلیق ہوئی؟
(مولانا یوسف پسروری صاحب کا ایک وائرل کلپ اور اس کی حقیقت)
تحریر
ڈاکٹر عبید الرحمن محسن
1. مولانا یوسف پسروری صاحب حفظہ اللہ معروف عوامی خطیب ہیں۔ دعوت وتبلیغ کے میدان میں ان کی وسیع خدمات ہیں۔
ان کا ایک کلپ وائرل ہے اور واٹس ایپ کے مختلف گروپس میں اس کے بارے استفسار کیا گیاہے۔ اس حوالے سے یہ تحریر
پیش خدمت ہے۔
کلپ میں مولانا یوسف پسروری صاحب نے جوش خطابت میں جو کہا اس کا مفہوم یہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا میرے محبوب کو بناؤ۔۔ والضحی کا چہرہ بنا دو۔۔ الم نشرح کا سینہ بنادو۔۔ ومارمیت کے ہاتھ بنادو۔۔ واللیل کی زلفیں بنادو۔۔ مٹی بچ گئی اللہ تعالیٰ نے کہا اس سے صدیق بنا دو۔۔ مٹی پھر بھی بچ گئی اللہ تعالیٰ نے کہا۔ اس سے عمر بنا دو۔
اس کی حقیقت کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔
2. یقیناً ان کا مقصد کوئی غلط بات پھیلانا نہیں تھا، بلکہ وہ صرف فضیلت اور نکتہ سنجی بیان کرنا چاہتے ہوں گے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے بیان کردہ مضمون میں متعدد باتیں قرآن و سنت کے صریحا خلاف ہیں، وہ نہ صرف سامعین کے لیے فکری گمراہی کا باعث بن سکتی ہیں، بلکہ اللہ کے کلام اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے برعکس ہیں۔ صرف ان باتوں کی اصلاح مقصود ہے۔
3. اس کلپ سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے جیسے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا آدم کی طرح براہ راست مٹی سے تخلیق کیا گیا ہے۔حالانکہ قرآن مجید میں وضاحت ہے:
الَّذِیۡۤ اَحۡسَنَ کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقَہٗ وَ بَدَاَ خَلۡقَ الۡاِنۡسَانِ مِنۡ طِیۡنٍ ۚ
جس نے جو چیز بھی بنائی ہے خوب ہی بنائی ہے! اس نے انسان کی خلقت کا آغاز مٹی سے کیا۔
یعنی تخلیق آدم مٹی سے ہوئی اور اس کے بعد کی نسل انسانی کو نطفہ سے پیدا کیا گیا۔
ثُمَّ جَعَلَ نَسۡلَہٗ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ مَّآءٍ مَّہِیۡن
پھر اس کی نسل حقیر پانی کے خلاصہ سے چلائی۔
السجدہ 7-8.
4. یہ تاثر بھی سراسر غلط ہے کہ جیسے فرشتے ایک ایک کرکے مٹی سے بنا رہے تھے اور ساتھ ساتھ ان کی راہ نمائی ہو رہی تھی۔
5. اللہ تعالیٰ کی قدرت میں کوئی نقص یا کمی نہیں، وہ بالکل درست اندازے کے مطابق تخلیق کرتا ہے۔
کلپ سے ایک عام سامع کو یہ تاثر ملتا ہے کہ جتنی مٹی کی تخلیق کے لیے ضرورت تھی اس سے زیادہ تیار ہو گئی،
اور دو بار بچ گئی۔یہ تاثر رب عظیم کی شان کے خلاف ہے۔
اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں:
وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا.
6. تحقیق کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مولانا نے اپنی بات کی بنیاد ایک من گھڑت اور جھوٹی روایت پر رکھی ہے.ایک روایت کے الفاظ ہیں:
” مَا مِنْ آدَمِيٍّ إِلا وَفِي سُرَّتِهِ مِنْ تُرْبَتِهِ الَّتِي خُلِقَ مِنْهَا، وَإِنِّي أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ خُلِقْنَا مِنْ تُرْبَةٍ وَاحِدَةٍ، وَفِيهَا نَعُودُ “.
جس مٹی سے انسان کی تخلیق ہوئی ہوتی ہے۔ہر آدمی کی ناف میں اس مٹی کا کچھ حصہ ہوتا ہے۔میں،ابو بکر اور عمر ایک ہی مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں اور اسی مٹی میں ہم لوٹ جائیں گے۔
دیگر الفاظ و طرق کے ساتھ بھی یہ روایت مروی ہے۔اور محدثین کے نزدیک جھوٹی روایت ہے۔
اس روایت کو موضوع (جھوٹی) روایات کے مجموعوں میں شامل کیا گیا ہے، جنہیں محدثین نے امت کو گمراہی سے بچانے کے لیے مرتب کیا تھا۔ لیکن افسوس کہ بعض لوگوں نے انہیں سے گمراہی پھیلانا شروع کر رکھی ہے۔
محدثین نے امت کی اصلاح کے لیے جو من گھڑت روایات جمع کی ہیں۔ ان میں یہ روایت مذکور ہے۔ امام ابن الجوزی،مام سیوطی
اور امام شوکانی نے الفوائد المجموعہ میں اس روایت کو جھوٹ اور موضوع قرار دیا ہے۔
الموضوعات: ابن الجوزی، (328/ 1).
السيوطي، اللآلي المصنوعة: 310/ 1، الشوکانی فی
الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة:رقم: 1065 )
7. عجیب بات یہ کے کہ اس جھوٹی روایت میں بھی وہ قصہ گوئی اور تخیلاتی منظر کشی موجود نہیں ہے جو مولانا یوسف پسروری صاحب نے اپنی تقریر میں بیان کی ہے۔ انہوں نے نہ صرف ایک جھوٹی روایت کو بنیاد بنایا بلکہ اس میں اپنی طرف سے اضافہ کر کے اسے مزید گمراہ کن بنا دیا۔
8. ایک خطیب کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن و سنت اور صحیح احادیث کی روشنی میں لوگوں کی رہنمائی کرے۔ محض سامعین کو محظوظ کرنے یا جوش پیدا کرنے کے لیے بے بنیاد اور جھوٹی باتیں بیان کرنا دین میں ایک سنگین اور کبیرہ گناہ ہے،جس پر جہنم کی وعید بتائی گئی ہے۔ اس طرح کی روایت سے اجتناب کرنا فرض ہے۔ یہ ضروری ہے کہ علماء اور خطباء بیان کرنے سے پہلے ہر روایت کی تحقیق کریں تاکہ امت کو گمراہی سے بچایا جا سکے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق بیان کرنے اور سننے کی توفیق نصیب فرمائے آمین۔
یہ بھی پڑھیں:فکری ارتداد کی جانب گامزن مسلم نوجوان