سوال (2143)

ایک شخص کی پہلی بیوی مرحومہ سے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، پہلی بیوی کی وفات کے بعد دوسری شادی کی جس سے ایک بیٹی ہے اور سب کو دوسری بیوی نے پالا، اور دوسری شادی کے بعد اس شخص نے دو گھر بنوائے، اب وہ شخص اپنی زندگی میں ہی کچھ جائیداد اور ایک مکان “پہلی فوت شدہ بیوی کے” بیٹے کے نام کر دیتا ہے، جبکہ دوسرے گھر میں دوسری بیوی اور بچے رہ رہے ہیں، وہ گھر اس شخص کے اپنے نام ہی ہے۔
کیا اس طرح اپنی زندگی میں اولاد میں سے کسی ایک کو جائیداد اور مکان دینا جائز ہے؟

جواب

والد زندگی میں جو کچھ دے گا، وہ ترکہ یا ورثہ نہیں ہے، بلکہ وہ گفٹ، ہدیہ یا ہبہ ہے، باپ کو چاہیے کہ عدل سے کام لے۔

حدثنا حَامِدُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ رضي الله عنهما وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ: أَعْطَانِي أَبِي عَطِيَّةً، فَقَالتْ عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ: لَا أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَقَالَ: إِنِّي أَعْطَيْتُ ابْنِي مِنْ عَمْرَةَ بِنْتِ رَوَاحَةَ عَطِيَّةً، فَأَمَرَتْنِي أَنْ أُشْهِدَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: “أَعْطَيْتَ سَائِرَ وَلَدِكَ مِثْلَ هَذَا؟ ” قَالَ: لَا، قَالَ: “فَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ”. قَالَ: ‌فَرَجعَ، ‌فَرَدَّ ‌عطِيَّتَهُ“

“عامر شعبی بیان کرتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ منبر پر بیان کر رہے تھے کہ میرے باپ نے مجھے ایک عطیہ دیا، تو عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا (نعمان کی والدہ) نے کہا کہ جب تک آپ رسول اللہ ﷺکو اس پر گواہ نہ بنائیں میں راضی نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ (حاضر خدمت ہو کر) انہوں نے عرض کیا کہ عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو میں نے ایک عطیہ دیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے میں آپ کو اس پر گواہ بنا لوں، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اسی جیسا عطیہ تم نے اپنی تمام اولاد کو دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھو۔ چنانچہ وہ واپس ہوئے اور ہدیہ واپس لے لیا”
[صحيح البخاري 3/ 158رقم 2587]
ایک صورت یہ ہے کہ تمام بچوں کو برابری کی صورت میں دے، اپنے لیے بھی جو مال روک لے ، اور بیوی کو بھی جو چاہے دے۔
یا “للذکر مثل حظ الانثین” کے تحت تقسیم کردے، یہ بھی جائز ہے، لیکن ایک کو دینا اور ایک کو محروم کردینا یہ صحیح نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ