ہم کسی کے کردار کی گواہی نہیں دیتے۔ ہر شخص میں عیب بھی ہو سکتے ہیں اور خوبیاں بھی،اور ہر ایک کو اس کا حساب یا تو اللہ کو دینا ہے یا عدالت کو، اس کے سوا کوئی راستہ دین و اخلاق ہمیں نہیں بتاتے۔ رہی بات میڈیا میں رسوا کرنے کی تو اس میں دو قباحتیں ہیں۔
اولا دینی وجہ ہے اور ثانیا دنیاوی وجہ سے۔
دینی یہ کہ دین نے اشاعت فاحشہ سے بھی منع کیا ہے اور کسی کو رسوا کرنے سے بھی منع فرمایا ہے اور پردہ پوشی کی ترغیب دی ہے۔ اگر کسی کے پاس کسی کے خلاف ثبوت ہیں تو شریعت و اخلاق اسے بتاتے ہیں کہ وہ عدالت میں جائے ،ثبوت دے اور ملزم کو مجرم ثابت کرکے اسے سزا دلوائے تاکہ معاشرے سے برائی ختم ہو،لوگوں میں برائی کی سزا کا خوف پیدا ہو اور لوگ آئندہ اس سے باز اور متنبہ رہیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا بلکہ میڈیا میں آکے کسی پر شرمناک الزام لگائے جاتے ہیں،اور عدالت میں جا کے ثابت نہیں کیا جاتا تو ظاہر ہے اس کا مطلب کسی کو گناہ کی سزا دلوانے کے بجائے رسوا کرنا ہوگا، اصولی طور پر اس سے معاشرے میں برائی تو عام ہوگی، دلوں اور ذہنوں سے برائی کی شناعت ختم ہوگی، لوگ بدترین باتیں چسکے لے لے کر کریں گے اور دلوں سے برائی کا خوف اور ہیبت کم ہوتی جائے گی۔ ظاہر ہے، اس سے نقصان ہی نقصان ہے، فائدہ کوئی نہیں۔ اسلام اس کی کبھی اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ ایسے لوگوں کیلئے بہتان بازی پر کوڑوں کی سزا تیار رکھتا ہے۔
اس سلسلے میں کہا جا سکتا ہے کہ ملزم خود عدالت جائے، بالکل ملزم کو عدالت ضرور جانا چاہئے، ازالہ حیثیت عرفی کا کیس کرنا چاہئے، تاکہ بلا ثبوت الزامات لگا کے کسی شخص اور معاشرے کی سماعت داغدار کرنے والا سزا پائے اور جرمانہ دے کر کچھ اخلاق و تہذیب سیکھے۔ ایسا لیکن پاکستان میں اسی صورت بہتر انداز میں ہو سکتا ہے، جب عدالتیں خود مختار اور انصاف پسند ہوں اور انصاف میں ان کا عالمی نمبر کسی باوقار ریٹنگ میں شمار ہوتا ہو۔ یہاں ہماری عدالتیں بھی اتنی ہی کمزور ہیں، جتنے عوام۔ عوام کی حالت یہ ہے کہ بے چارے میڈیا کے ذریعے دکھائے گئے پر پیچ و تاب کھاتے رہتے ہیں اور بعد میں پتہ چلتا ہے، یہ سب کسی کی ہدایات کا نتیجہ تھا اور وہ ہدایات کسی وقتی مفاد یا عناد کی وجہ سے مخصوص حالات پیدا کرنے کیلئے ہوتی ہیں۔ یہ ہدایات بھی ایسی ہوتی ہیں کہ ایک وقت میں نواز شریف غدار بھی ہوتا ہے، کرپشن کا مجسمہ بھی ہوتا ہے،میڈیا پر ناقابل ذکر بھی ہوتا ہے اور دوسری دفعہ اسی ملک ،اسی میڈیا اور انھی عدالتوں میں اس سے بڑا مسیحا کوئی نہیں ہوتا۔ ایسے میں خصوصا دیانت دار اور دین دار لوگوں کیلئے دینی و اخلاقی قرینہ یہی ہے کہ بلا دلیل و عدالت کسی پر الزام عائد کرکے اپنی عاقبت خراب نہ کریں، دینی طور پر یہ کسی طور روا اور جائز نہیں۔
نمبر دو دنیاوی اور عقلی طور پر اب عوام کو تھوڑا سا بالغ النظر اور با شعور ہو جانا چاہیے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سیاست دان فرشتے ہیں۔ وہ بھی ہم جیسے ہی ہیں۔ ان میں اچھے بھی ہیں برے بھی ہیں۔ لیکن میں اس بات سے انکار کرتا ہوں کہ سیاست دانوں کے سوا سب دودھ کے دھلے، قرون اولی کے اولیا اور معصوم عن الخطا ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ جب کرپٹ، غدار اور عیاش دکھائے جاتے ہیں، وہ صرف سیاست دان ہوتے ہیں۔ باقی کہیں مسئلہ ہو بھی تو یعنی باقاعدہ غدار ہوں بھی تو انھیں میڈیا پر نہیں لایا جاتا، زیادہ سے زیادہ ایک خبر دے دی جاتی ہے۔جس میں نہ کوئی تفصیل ہوتی ہے اور نہ رسوا کن تشہیر۔ پھر کیا وجہ ہے کہ بے نظیر سے لیکر عمران خان تک میڈیا پر ہمیں ہمیشہ اہل سیاست کی کردار کشی دکھائی دیتی ہے، ایسی کہ شریف آدمی گھر میں بیٹھ کے ٹی وی نہ کھول سکے۔ اس کا مطلب ہے مسئلہ برائی کے خاتمے یا ملکی سلامتی کا نہیں ہوتا، انصاف اور عدل کا بھی نہیں ہوتا، بلکہ بعض معاملات کے لیے وقتی طور پر کسی سیاست دان کو ٹارگٹ کرنے کا ہوتا ہے اور یہ باریاں سارے سیاست دان بھگتتے رہتے ہیں۔ تو اس بارے میں کم از کم عوام ہی اتنے عرصے بعد کچھ شعور کا مظاہرہ کریں۔ وہ کیوں ایسے اہداف میں آلہ کار بنتے ہیں۔ کیوں ایسے موقف کے پرجوش وکیل بن کے اپنا اخلاق اور عاقبت خراب کرتے ہیں؟
مجھے معلوم ہے کہ سیاست کے مخالف کو نیچا دکھانے کے جنون میں ہم نے اس پر غور تو نہیں کرنا،لیکن پھر بھی میں نے چاہا تھوڑا سا اس زاویہ نگاہ کو بھی آپ کے سامنے پیش کر دیا جائے۔

یوسف سراج