سوال
علمائے کرام! کیا اساتذہ جب کلاس میں پڑھانے کے لیے آتے ہیں اس وقت کھڑے ہونا جائز اور درست ہے؟
جواب
استاذ کے کلاس میں آنے پر یا کسی بھی شخصیت کے لیے تعظیما کھڑے ہونا شرعا ثابت نہیں، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسکو سخت ناپسند فرماتے تھے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“لَمْ يَكُنْ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَكَانُوا إِذَا رَأَوْهُ لَمْ يَقُومُوا لِمَا يَعْلَمُونَ مِنْ كَرَاهِيَتِهِ لِذَلِكَ”. [سنن الترمذی: 2754]
’’کوئی شخص انہیں یعنی ( صحابہ ) کو رسول اللہ سے زیادہ محبوب نہ تھا ، ( لیکن ) وہ لوگ آپ کو دیکھ کر (ادباً ) کھڑے نہ ہوتے تھے۔ اس لیے کہ وہ لوگ جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ناپسند کرتے ہیں‘‘۔
ایک حدیث کے اندر ایسے شخص کے لیے جہنم کی وعید آئی ہے جو یہ پسند کرتا ہو کہ لوگ اس کے لیے تعظیما کھڑے رہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَمْثُلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ”. [سنن أبی داؤد: 5229]
’’جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے رہیں تو اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے‘‘۔
لہذا استاذ یا کسی بھی شخصیت کے لیے تعظیما کھڑے ہونا شرعا درست اور جائز نہیں ہے۔
لیکن ویسے ہی کسی کا آگے بڑھ کر استقبال کرنا یا اس کو ملنے کے لیے کھڑا ہونا یہ جائز ہے۔
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جب بنو قریظہ کے فیصلہ کے لیے آئے تو آپ نے فرمایا تھا: «قوموا إلى سيدكم» اپنے سردار کے استقبال کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ [صحیح البخاری:3043]
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ایک دوسرے کا آگے بڑھ کر استقبال کیا کرتے تھے۔ [سنن ابى داود:5217]
قيام کی جائز و ناجائز صورتوں کے حوالے سے قدرے تفصیلی گفتگو فتوی نمبر 18 میں گزر چکی ہے۔
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ