سوال

مفتیان کرام    حفظکم اللہ ! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گھروں میں بچیاں اپنے بڑوں کے سامنے سر جھکاتی ہیں پیار لینے کیلئے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟ میں نے اوپر جو فتوی بھیجا ہے اس میں اسے ناجائز قرار دیا گیا ہے ۔ تو کیا آپ حضرات کا بھی یہی فتویٰ ہے ؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده !

  • محبت بھرے جذبات سے خیروبرکت کی دعائیں دیتے ہوئے بزرگوں کا بچوں اور بچیوں کے سر پر ہاتھ پھیرنے کو ہمارے معاشرے میں ’’پیار‘‘ کہا جاتا ہے۔ دینِ اسلام نے اسے مشروع قرار دیا ہے، چنانچہ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میری خالہ مجھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئیں، انہوں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا یہ بھانجا ہے، تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے خیروبرکت کی دعا فرمائی۔ [صحیح بخاری:190، 3541، 5670، 6352] امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک جگہ اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’بچوں کے لیے خیروبرکت کی دعا کرتے ہوئے ان کے سر پر ہاتھ پھیرنا۔‘‘[8/76، كتاب الدعوات، باب الدعاء للصبيان بالبركة، ومسح رؤسهم]
  • زیربحث مسئلہ میں شرعی اعتبار سے تین باتیں قابلِ غور ہیں:
  • پیار دیتے ہو ئے ہاتھ سر پر پھیرنا
  • پیار لینے کے لیے کھڑے ہونا
  • پیار لینے کے لیے سرجھکانا

پہلے کی  متعدد صورتیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:

٭ بزرگ مرد محرم ہو تو اس کا اپنے سے چھوٹوں کو پیار دینا خواہ وہ بالغ ہی کیوں نہ ہوں۔

٭ بزرگ عورت محرمات سے ہے اس کا اپنے سے عمر میں چھوٹوں کو پیار دینا خواہ وہ حد بلوغ کو پہنچ چکے ہوں۔

٭ بزرگ مرد غیر محرم یا عورت غیرمحرمہ کا نابالغ بچوں اوربچیوں کو پیار دینا۔

ان تین صورتوں کے جواز میں دوآراء نہیں ہو سکتیں۔ البتہ درج ذیل دو صورتوں میں اختلاف ہے:

٭ بزرگ مرد غیر محرم ہو ،وہ اپنی رشتہ دار بالغ بچیوں کے سر پر ہاتھ پھیرے۔

٭ بزرگ عورت غیر محرمات سے ہو ،اور وہ اپنے رشتہ دار بالغ بچوں کو پیار دے۔

ان آخری دونوں صورتوں کے متعلق علماء  کے دو موقف سامنے آئے ہیں:

(ا) ایسا کرنا جائز نہیں ہے  کیونکہ شریعت میں اس کا ثبوت نہیں۔

(ب) ایسا کرنا جائز ہے کیونکہ شریعت نے اس سے منع نہیں کیا۔

فریقین کے دلائل پیش کرنے کے بعد آخر میں ہم اپنا موقف بیان کریں گے۔

جو حضرات اسے ناجائز قرار دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں، آپ نے کبھی کسی بالغ بچی کے سر پر ہاتھ نہیں پھیرا، حالانکہ آپ تمام لوگوں میں زیادہ پرہیزگار اور اﷲ سے ڈرنے والے تھے۔ نیز وہ امت کے لیے روحانی باپ کی حیثیت رکھتے بلکہ بعض مواقع پر آپ نے ایسے ارشادات فرمائے ہیں جن کے عموم سے پتہ چلتا ہے کہ ایسا کرنا جائزنہیں ہے۔ مثلاً:

  • عورتوں سے بیعت لیتے وقت بعض خواتین کی طرف سے خواہش کا اظہار ہوا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ہم سے مصافحہ کیوں نہیں کرتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ’’میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔‘‘ [مسند احمد:27009] جب بیعت کے وقت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ سے نہیں لگا تو عام آدمی کے لیے عورتوں کے سر پر ہاتھ پھیرنا کیونکر جائز ہو سکتا ہے؟
  • حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیاہے کہ اﷲ کی قسم! رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو چھوا تک نہیں۔ [صحيح البخارى:4891]

جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جو خیرالبشرہیں اور قیامت کے دن اولادِ آدم کے سردار ہوں گے، ان کے مبارک ہاتھوں نے کسی عورت کے ہاتھ کو چھوا تک نہیں، تو دوسرے غیرمحرم مردوں کے لیے کس طرح اجنبی عورتوں کے سر پر ہاتھ پھیرنا جائز کیسے ہو سکتا ہے؟

  • جو عورت مرد کے لیے حلال نہیں ہے اسے ہاتھ لگانا بہت سنگین جرم ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر آدمی کے سر میں نوک دار لوہے سے سوراخ کر دیاجائے تو یہ اس بات سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت کو ہاتھ لگائے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔ [مسند الرويانى:1283، المعجم الكبير للطبرانى:486-487، الصحيحة للألبانى:226]

اس حدیث کی رو سے بھی اجنبی عورت کو ہاتھ لگانے کی حرمت ثابت ہوتی ہے، البتہ کسی ناگہانی ضرورت کے پیش نظر عورت کوہاتھ لگانے میں چنداں حرج نہیں مثلاً بیماری کی حالت میں ڈاکٹر یا طبیب کا نبض دیکھنا یا مکان کو آگ لگنے کی صورت میں اسے پکڑ کر مکان سے باہر نکالنا، لیکن پیار دیتے وقت اس کے سر کو ہاتھ لگانا کوئی حقیقی ضرورت نہیں۔

  • جو حضرات بزرگوں کے لیے اجنبی عورت کو پیار دینے کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں،ان کے پاس کوئی نقلی دلیل نہیں ہے البتہ وہ عقلی اعتبار سے کہتے ہیں کہ یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے جو معاشرہ کے رسم ورواج سے تعلق رکھتا ہے چونکہ شریعت نے اس سے منع نہیں فرمایا، اس لیے ایسا کرنا جائز ہے، پھر ایسا کرنے سے تبلیغ وغیرہ کا بھی موقع ملتا ہے کہ اگر بچی ننگے سر ہو تو اسے سمجھایا جا سکتا ہے۔ شریعت نے معاشرہ میں رائج، معروف، کو بہت حیثیت دی ہے اس لیے اسے جائز ہونا چاہیے۔ پھر ایسے موقع پر کسی قسم کے منفی جذبات ابھرنے کا امکان بھی نہیں ہوتا جن کے پیش نظر اسے ممنوع قرار دیاجاسکے، اگر ایسا اندیشہ ہو تو اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، معقل بن یسار رضی اللہ عنہ والی حدیث کا تعلق ایسے حالات سے ہے جب ہاتھ لگانے والا دل کا کوڑھا اور نیت میں فتور رکھتا ہو۔
  • یہ تو تھے فریقین کے دلائل، ہمارا رجحان یہ ہے کہ تقویٰ اور پرہیزگاری کے پیش نظر اس سے اجتناب کیا جانا چاہیے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے عمررسیدہ عورت کو پردہ کے سلسلہ میں کچھ نرمی دی ہے، لیکن اس کے باوجود فرمایا ہے کہ اگر وہ اس نرمی کو استعمال کرنے سے پرہیز کریں تو یہی بات ان کے حق میں بہتر ہے۔[النور:۶۰]

البتہ مجوزین حضرات کے موقف کو بالکل نظر اندازنہیں کیا جا سکتا، لہذا اگر کوئی برخوردار عمر رسیدہ خاتون کے سامنے سر جھکا دے یا کوئی برخورداری اپنے کسی بزرگ کےسامنے پیار لینے کے لیے اپنا سر آگے کر دے تو ان کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہیے، لیکن انہیں صحیح مسئلہ سے ضرور آگاہ کر دیاجائے۔ البتہ ہمارے بعض خاندانوں میں ایسے موقع پر گلے ملنے کا رواج ہے، اس کی کسی صورت میں اجازت نہیں دی جا سکتی، اسی طرح سر پر ہاتھ پھیرتے وقت اگرکسی قسم کی شہوانیت پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو بھی اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

  • پیار لینے کے لیے کھڑے ہونا

یادر ہے کہ قیام کی تین صورتیں ہیں ایک جائز ہے اور دوناجائز ہیں۔

  • ایک ہے قیام الیہ ۔ جس کو ہم استقبال کہتے ہیں، یعنی کسی کی طرف چل کر جانا ۔حضرت سعد بن  معاذ رضی اللہ عنہ جب بنو قریظہ  کے فیصلہ کے لیے آئے تو آپ نے فرمایا تھا: «قوموا إلى سيدكم» اپنے سردار کے استقبال کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ [صحیح البخاری:3043]

اسی طرح   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اورحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا  ایک دوسرے کا آگے بڑھ کر استقبال کیا کرتے تھے۔ [سنن ابى داود:5217]

  • اور جو قیام لہ ہے، یعنی کسی کے ادب واحترام کے لیے کھڑا ہونا، تو یہ منع ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
  • (من أحب أن يتمثل له الناس قياماً فليتبوأ مقعده من النار) [ابوداود:5229، ترمذی:2755، الصحيحة:357]

جو یہ پسند کرے کہ لوگ اس کے لیے دست بستہ کھڑے ہوں، تو اسے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالینا چاہیے۔

  • اور ایک ہے قیام علیہ: کہ آدمی بیٹھا ہو اور لوگ اس کے اردگرد دست بستہ کھڑے ہوں یہ بالکل حرام ہے اور یہ عجمیوں کا طریقہ ہے ، اس قسم کا ادب واحترام صرف اللہ کے لیے ہونا چاہیے ۔

بچے بچیاں پیار لینے کےلیے کھڑے ہوتے ہیں، تو ہمارے خیال کے مطابق یہ پہلی قسم سے ہے، جو کہ جائز ہے۔

  • پیار لینے کے لیے سر جھکانا

ملاقات کے وقت جھکنے سے  حدیث میں ممانعت وارد ہے،[ترمذی:2728،الصحيحة:160] لہذا پیار لینے یا ویسے ہی ملنے کے لیے جھکنا جائز نہیں، البتہ اگر پیار دینے والا بیٹھا ہو، یا ویسے ہی قد وقامت میں چھوٹا ہو، تو اس کی آسانی کے لیے جھکا  جا سکتا ہے، کیونکہ یہاں جھکنا اصل مقصود ومطلوب نہیں ہے۔

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ