کتاب میں گم ایک محقق
دنیا میں جب ہمارا بہت جی لگ جائے،یوں کہ گویا یہی کل زندگی ہے اور یہاں سے جانا ہمارے ذہن سے محو ہو جائے تو پھر ہمارا کوئی محبوب، جان سے پیارا یا کوئی اپنے شعبے کا ایسا ماہر ہمارے سامنے سے رخصت ہوکے قبر میں یوں اتر جاتا ہے کہ ہم چونک اٹھتے ہیں؟ تو یہ دنیا ایسی عارضی ہے؟ مفتی مبشر احمد ربانی بھی دینی حلقے کی ایسی ہی ایک شخصیت تھے۔ علما سے یہ دھرتی کبھی خالی نہیں رہتی،ہر محلے ،ہر مسجد اور شہر میں علما ہوتے ہیں،ہر مذہب اور ہر مسلک میں۔ مفتی مبشر احمد ربانی جیسے مگر خال خال۔ یہ لوگ علما کے استاد اور اہل علم کا مرجع ہوتے ہیں۔ اہل علم جن سے اپنی مشکلات کا حل پاتے ہیں۔ مفتی صاحب کی شخصیت کیلئے کوئی ایک جملہ کہنا ہو تو وہ ہے، کتاب میں گم ایک محقق۔ یہ بات انھوں نے میرے ہی ٹی وی انٹرویو میں بتائی تھی کہ دور طالبعلمی میں کسی کو خون دینے پر ان لوگوں نے انھیں فروٹ وغیرہ کھانے کیلئے کچھ پیسے دئیے، تو اس کی بھی انھوں نے کتاب خرید لی تھی۔ یہ بھی بتایا کہ صرف ایک کتاب کی خاطر چار چکر پشاور کے لگے۔ کتاب خریدتے پڑھتے اور اہل علم کی رہنمائی کرتے وہ اپنی زندگی پوری کر گئے۔تحقیق کرتے رہے،اس کتاب اور قلم سے عام کرتے رہے۔ آپ شائستہ زبان بھی تھے اور شائستہ قلم بھی۔ مسکراہٹ چہرے پر دائم کھیلتی رہتی۔ اہل علم میں مگر ان کے علم کی دھاک بھی بہت تھی۔ وہ مسائل جہاں عام علما گھبرا اٹھتے،آپ مسکراتے ہوئے وہ عقدے کشا کر دیتے۔ اللہ کو جب منظور ہو تو کیسے راہ خود آدمی کو آ ڈھونڈتی ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ انھوں نے کپڑے سلائی کرکے گزر بسر کرنے کی ٹھانی تھی، اللہ نے مگر ان سے امت کی فکری بخیہ گری کا کام لینا تھا اور لیا۔ انھوں نے جس فکر کو شعار کیا،تحقیق کی سنگلاخ راہ سے گزر کر اس ٹی پہنچے۔ پھر پروا نہیں کی کہ اس میں پاؤں زخمی ہوتے ہیں یا ہاتھ شل۔ کتاب و سنت کی روشنی میں ایسا مدلل فتوی لکھا کہ اپنے حلقے میں جن چند مفیتان کا کام لیا جا سکتا تھا،ان میں سے ایک تھے،بلکہ بعض اعتبار سے سرفہرست۔غربت اور عسرت سے اٹھ کے آئے تھے،مزاح میں دم آخر تک سادگی رہی۔ آخر عمر میں جسم پر فالج نے حملہ کیا،صبر و شکر سے سہہ گئے۔ وہ مجلس مجھے یاد ہے،عیادت کے لیے جب ہم حاضر ہوئے تو آیات و احادیث پڑھتے چلے گئے۔
مفتی مبشر احمد ربانی انھی میں سے ایک تھے،جن کا جانا آدمی کو چونکا دیتا ہے۔علما کی شان ویسے بھی عجب ہی ہوتی ہے۔ زندہ ہوتے ہیں تو بھی زندگی کی ناپائیداری کا درس دیا کرتے ہیں اور جب اپنا وقت پورا کرتے ہیں تو بھی سراپا وعظ ہوجاتے ہیں۔ خدا ان کی حسنات قبول فرمائے،سیئات سے درگزر فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل اور اجر جزیل سے نوازے۔
#یوسف_سراج
جیتے جی زندگی کے اپنے تقاضے ہیں، گھر بھی چاہئے ہوتا ہے اور ظاہر ہے گھر بڑا بھی مطلوب ہوتا ہے،گاڑی بھی ضرورت ہے اور ظاہر ہے پھر زندگی کے اور بہت تقاضے ہیں،جن کے حصول کیلئے آدمی لڑ مر جاتا ہے، کسی کی بات نہیں سہتا اور اپنی ذات سے آگے نہیں سوچتا۔ اس سے جو ہو پائے کر گزرتا ہے، جسم و جان کی قیمت پر بھی اور کبھی تو ضمیر اور ایمان کی قیمت پر بھی۔۔
پھر لیکن سانس نکلتے ہی نہ جانے کیا ہوجاتا ہے کہ یہی لا محدود انا کے وفور سے پھٹا پڑتا انسان ہر چیز سے بے نیاز ہوکے مٹی کی اک ڈھیری میں سما جاتا ہے۔ اس مٹی کی ڈھیری میں بھی جانے کیسی وسعت ہے؟ کوئی عالم ہو کہ جاہل ،بادشاہ ہو کہ بے نوا، نعمتوں کا پروردہ ہو کہ جینے کی آرزو سے ہی آزردہ۔۔ کس آسانی سے یہاں سما جاتا ہے۔
غور کیجیے کہ یہ مرقد ہے، اس شخص کا جسے دنیا نے مفتی ،مناظر، مصنف ،استاذالعلما، ذہن ساز و تربیت کار کہا، جس کے جنازے میں مسجد کے تین درجوں میں بھرے انسانوں اور مسجد کے دونوں طرف موجود خلقت سے تنگ پڑے میدانوں نے ، جسے حامی قرآن اور ناصرالسنہ کے القاب سے یاد کیا۔ دیکھئے تو یہ اسی شخص کا مرقد ہے۔ جو پکار پکار کے ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی جتنے بھی نام و نمود اور سامان وجود سے بھر لی جائے،آخرش جگہ اتنی ہی درکار ہوتی ہے۔روشنی و وسعت اگر یہاں کے لیے کوئی ہو سکتی ہے تو وہ باہر کیلئے نہیں بس اندر کیلئے ہو سکتی ہے۔ یہ بات لیکن کوئی تب تک کیسے سمجھے، جب تک کہ خود ہمارا وجود اس جگہ میں سما نہیں جاتا۔
بس دعا ہے کہ زندگی تو کٹ ہی جاتی ہے، اللہ اس جگہ کو منور کر جانے کی توفیق ارزاں کر دے۔
#یوسف_سراج
یہ بھی پڑھیں: نامور عالم دین مفتی مبشر احمد ربانی وفات پا گئے!