کتب حدیث میں کتب ستہ کا جو مقام ومرتبہ ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ الحمد للہ اکثر مدارس میں یہ داخل نصاب ہیں۔
اکثر یہ پوچھا جاتا ہے کہ ان کتب کو کم سے کم وقت میں ختم کرنے کا آسان طریقہ کیا ہے۔
میرے خیال سے اس کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اصول کو پڑھا جائے اور مکرر احادیث کو صرف ایک بار پڑھا جائے۔ بار بار اسے دہرایا نہ جائے۔
مثلا: ”إنما الأعمال بالنیات“ والی حدیث کو لیں۔ صرف صحیح بخاری میں یہ حدیث سات بار آئی ہے، اور سنن نسائی میں تین بار۔ اسی طرح یہ صحیح مسلم میں بھی ہے اور سنن ابی داود، سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں بھی۔ اب اسے چودہ مرتبہ پڑھنے کےبجائے صرف ایک مرتبہ پڑھنے پر اکتفا کیا جائے۔ اس طرح کم وقت میں کتب ستہ کی تمام احادیث کو اطمینان کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی کوئی کتاب ہے جس سے اس کام میں مدد مل سکے؟
اس طرح کی کئی کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن تمام دستیاب نہیں۔
علامہ ابن الملقن رحمہ اللہ (متوفی 804 ھ) نے زوائد کے ذریعہ کتب ستہ کے اصول کو جمع کیا تھا۔ آپ نے صحیح بخاری پر صحیح مسلم کے زوائد کو، پھر دونوں پر ابو داود کے زوائد کو، پھر تینوں پر جامع ترمذی کے زوائد کو، پھر چاروں پر سنن نسائی کے زوائد کو، پھر پانچوں پر سنن ابن ماجہ کے زوائد کو جمع کیا تھا۔ اور ان کی مستقل شرح بھی لکھی تھی۔ لیکن افسوس کہ ان زوائد کے وجود کا کوئی علم نہیں۔ جب کہ شروحات کا بعض حصہ چھپا ہے اور بعض مفقود ہے۔
اگر ابن الملقن کے زوائد موجود ہوتے تو کتب ستہ کو کم وقت میں پڑھنے کا یہ سب سے بہتر طریقہ ہوتا۔
عصر حاضر میں بھی اس نوعیت کے بعض کام ہوئے ہیں۔ میرے ایک یمنی ساتھی نے یمن کے ایک حلقۂ حفظ میں اس طرح کے ایک نسخہ سے کتب ستہ کو صرف چار مہینے میں حفظ کیا ہے۔ صحیحین دو مہینوں میں، اور سنن اربعہ دو مہینے میں۔ مدینہ طیبہ میں بھی کتب ستہ یاد کرنے والے طلبہ اس نسخہ سے یاد کرتے ہیں۔ لیکن یہ کتاب مارکیٹ میں برائے فروخت دستیاب نہیں ہے۔ میرے اس یمنی ساتھی کے مطابق صرف حلقۂ حفظ میں داخلہ لینے والے طلبہ کو یہ نسخے دئے جاتے ہیں، کسی دوسرے کو نہیں۔ اس لئے عام لوگوں کا اسے حاصل کرنا مشکل ہے۔
اسی طرح کا ایک کام شیخ صالح احمد الشامی حفظہ اللہ نے کیا ہے۔
”تقریب السنہ“ پروجیکٹ کے تحت آپ اب تک حدیث کی مشہور چودہ کتابوں پر کام کر چکے ہیں۔ ان میں سے کتب ستہ پہلے نمبر پر آتے ہیں۔ آپ نے سب سے پہلے ایک کتاب میں صحیحین کی احادیث کو جمع کیا۔ پھر ایک دوسری کتاب میں صحیحین پر سنن خمسہ (سنن ابی داود، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ، ودارمی) کے زوائد کو جمع کیا۔ پہلی کتاب کا نام: ”الجامع بین الصحیحین“، اور دوسری کا ”زوائد السنن علی الصحیحین“ ہے۔
اس میں آپ نے مکرر احادیث کو حذف کر دیا ہے۔ اسی طرح اسانید کو حذف کرکے صرف صحابی کا نام باقی رکھا ہے۔ اس پروجیکٹ سے فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ”الجامع بین الصحیحین“ پڑھا جائے، پھر ”زوائد السنن علی الصحیحین“۔ کیونکہ اگر حدیث صحیحین میں ہو تو ”زوائد“ میں ہر باب کے تحت پہلے ”الجامع“ کا نمبر موجود ہوتا ہے ۔ اور اگر سنن خمسہ میں صحیحین پر کچھ اضافہ ہو تو ”الجامع“ کا نمبر لکھنے کے بعد صرف زائد ٹکڑا بیان کیا جاتا ہے، پورا متن نہیں، ورنہ ”الجامع“ کے نمبر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اس لئے ”زوائد السنن علی الصحیحین“ میں بہت سارے ابواب آپ کو ایسے ملیں گے جن میں صرف نمبر ہیں، حدیث کا متن نہیں۔ یہاں پر قاری جھنجھلاہٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔
مصنف کا مقصد چونکہ کتاب کم سے کم حجم میں پیش کرنا ہے اس لئے انھوں نے کتاب میں نمبر کا استعمال بہت زیادہ کیا ہے۔ کتاب شروع کرنے سے پہلے ان نمبر کا کیا معنی ہے یہ جاننا بہت ضروری ہے ورنہ قاری کے بھٹکنے کا بہت اندیشہ ہے۔
سنن خمسہ میں چونکہ صحیح وحسن کے ساتھ ضعیف بلکہ موضوع احادیث بھی ہیں اس لئے مصنف نے ضعیف وموضوع احادیث پر حاشیہ میں شیخ البانی رحمہ اللہ کے احکام کو نقل کر دیا ہے۔ بعض دوسرے علما کے احکام بھی موجود ہیں، لیکن اصل دار ومدار شیخ البانی رحمہ اللہ پر ہی ہے۔
دستیاب کتابوں میں اس کام کے لئے ایک اچھی کتاب علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ (متوفی 606ھ) کی ”جامع الأصول في أحاديث الرسول“ ہے۔ یہ ایک متقدم عالم کی کتاب ہے۔ اس میں کتب ستہ کے اصول کو نہایت آسان اسلوب میں جمع کر دیا گیا ہے۔
حروف تہجی کے اعتبار سے مختلف موضوعات کے تحت احادیث کو اس میں مرتب کیا گیا ہے۔ اور اس ترتیب میں کلمہ کے پہلے حرف کا اعتبار کیا گیا ہے چاہے وہ اصلی ہو یا زائد۔ مثلا اسلام اور اعتصام یہ دونوں کلمے الف کے تحت ملیں گے، گرچہ الف (ہمزہ) اصلی نہیں، زائد ہے۔ صرف الف لام (لام تعریف) کا اعتبار نہیں کیا گیا ہے، باقی کسی بھی حرف کو چھوڑا نہیں گیا ہے۔
اسانید کو حذف کرکے صرف صحابی کا نام باقی رکھا گیا ہے۔ اور متن ذکر کرنے کے بعد کن کن کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے ان کا حوالہ دے دیا گیا ہے۔ بلکہ مطبوعہ نسخہ میں صحابی کے نام سے پہلے ہی ان مصادر کے رموز ذکر دئے گئے ہیں جن سے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ حدیث کن کن کتب میں موجود ہے۔
اگر کسی کتاب میں کوئی زیادتی اور اضافہ ہو تو اسے بھی اہتمام کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح ایک ہی حدیث گرچہ کمی وبیشی کے ساتھ مختلف کتابوں میں موجود ہو اس کتاب کے ذریعہ اس سے بھی آگاہی ہو جاتی ہے۔
آخر میں ہر حدیث کے بعد مشکل الفاظ کی شرح بھی پیش کی گئی ہے۔ جو کہ اس کتاب کی ایک اہم خوبی ہے۔
واضح رہے کہ غریب الفاظ کی شرح کے لئے آپ معتبر مانے جاتے ہیں۔ آپ نے اس میں مستقل کتاب بھی تصنیف کی ہے، نام ہے: النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر۔ کتب الغریب کی سب سے عمدہ کتابوں میں اس کا شمارہوتا ہے۔
ایک بات کا خیال رہے کہ اس میں سنن ابن ماجہ کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس میں چَھٹی کتاب سنن ابن ماجہ نہیں، موطا امام مالک ہے۔ اسے پڑھنے کے بعد سنن ابن ماجہ کے زوائد کو پڑھنے کے لئے علامہ بوصیری رحمہ اللہ کی ”مصباح الزجاجۃ في زوائد ابن ماجہ“ سے مدد لی جا سکتی ہے۔ اس طرح صرف “جامع الاصول” اور “مصباح الزجاجہ” پڑھنے والا کتب ستہ اور موطا امام مالک مکمل پڑھ لےگا۔ اور کتب ستہ علیحدہ علیحدہ پڑھنے کے مقابلے میں اس میں وقت بھی کافی کم لگےگا۔

خلاصۂ کلام:
کتب ستہ کو کم سے کم وقت میں پڑھنے کے لئے دو طریقے اپنائے جا سکتے ہیں:
پہلا: شیخ صالح احمد الشامی حفظہ اللہ کی دو کتابوں کو پڑھا جائے: ”الجامع بین الصحیحین“، اور”زوائد السنن علی الصحیحین“۔
دوسرا: علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ کی ”جامع الأصول في أحاديث الرسول“ اور علامہ بوصیری رحمہ اللہ کی ”مصباح الزجاجۃ في زوائد ابن ماجہ“ کو پڑھا جائے۔

ضروری تنبیہ:
کتب ستہ پڑھنے کا یہ طریقہ خارجی مطالعہ کے لئے تو مفید ہے لیکن مدارس کے درسی نظام میں اسے اختیار کرنا قطعا صحیح نہیں۔ مشایخ کے دروس میں یا کلاس میں استاد سے کتب ستہ کو علیحدہ علیحدہ اصل کتاب سے پڑھنا نہایت ضروری ہے تاکہ ہر کتاب کے منہج سے واقفیت حاصل ہو۔ احادیث کی روایت کے بعد مصنفین کی جو مختصر اور جامع تعلیقات ہوتی ہیں ان سے آگاہی ہو۔ صحابہ، تابعین اور فقہائے اسلام کے منہج و مذہب کی جانکاری ہو، اور طلبہ کے اندر فقہ المتن کے ساتھ ساتھ فقہ الاسانید کا بھی ملکہ پیدا ہو۔ شارٹ کٹ راستہ اپنانے والا ان بیش بہا خوبیوں کو نہیں پا سکتا۔
یہ مختصر کتابیں یقینا آج کے ہم جیسے سست اور پست ہمت والوں کے لئے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ لیکن یہ کبھی بھی اصل کتابوں کی جگہ نہیں لے سکتیں۔

 فاروق عبد اللہ نراین پوری