سوال (2255)

مشائخ سے مشورہ درکار ہے کہ سٹوڈنٹس ماشاءاللہ سارے اہل حدیث ہیں، وہ ترجمہ و تفسیر اور صحیح البخاری کے کچھ ابواب پڑھنا چاہ رہے ہیں، انہوں نے مشورہ کیا ہے کہ دیوبندی استاد رکھ لیں ، کیا اس میں شرعی اور عقیدہ کے اعتبار سے نقصان تو نہیں ہوگا؟

جواب

فنون صرف و نحو و منطق وغیرہ کی تدریس کے لیے تو ان کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔ ترجمہ تفسیر اور حدیث کے لیے منہجی شخصیت کی خدمات لینی چاہییں۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

کسی بھی بد عقیدہ، بدعتی سے علم لینا یہ اپنے ایمان کو ضائع کرنا ہے، استاذ کا صحیح المنہج اور صحیح العقیدہ ہونا لازم ہے، علمائے احناف کبھی بھی صحیح البخاری کی مرادوں سے واقف نہیں ہوسکتے ہیں، یہ تو تقلید کی آڑ میں حدیث کو گرانے والے لوگ ہیں۔ ان سے خیر کی امید رکھنا ہی غلط ہے ، کسی غیر اہلحدیث کے پاس اپنے اہل توحید بچوں کو پڑھانا یہ بچوں کے ساتھ بددیانتی ہے، جس کی سخت مذمت کرنی چاہیے ، شریعت تو بدعتی کی تعظیم کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہے ، بدعتی سے علم لینا تو بہت بعید ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“مَنْ وَقَّرَ صَاحِبَ بِدْعَةٍ فَقَدْ أَعَانَ عَلَى هَدْمِ الْإِسْلَام” [شعب الایمان: 9464 سندہ حسن]

رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا جس شخص نے کسی بدعتی کی تعظیم و نصرت کی تو اس نے اسلام کے گرانے پر معاونت کی۔
لہذا بدعتی شخص سے علم حدیث، عمل تفسیر، حاصل کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على رسوله الأمين أما بعد:
کتاب وسنت کے محافظ و ترجمان اور امین ہر زمانے میں صرف أھل الحدیث رہے ہیں سو انہیں سے دینی راہنمائی اور تعلیم وتدریس کی خدمات لینی چاہیے ہیں۔ اہل بدعت سے قرآن کریم اور حدیث مبارک جیسا مبارک اور پاکیزہ علم حاصل کرنا کسی صورت درست نہیں ہے ما سوائے عام علوم وفنون کے اور وہ بھی اس وقت جب طالب علم کتاب وسنت میں رسوخ حاصل کر چکا ہو اور گمراہ ہونے سے بچنے کی اہلیت رکھتا ہو، مگر ہمارے نزدیک کلی طور پر بچنا ہی بہتر اور خیر والا پہلو ہے۔ اہل بدعت سے قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل نہ کرنے کے بنیادی اسباب یہ ہیں:
(1) اتباع اسلام کی خالص پیروی نہیں کرتے
(2) کئی غیر ثابت مسائل کا بلا دلیل دفاع کرنا
(3) اپنے مسلک کے دفاع میں دلائل گھڑنا یعنی قرآن وحدیث کے مبھم اور غیر مفسر مقامات کو اپنے خاص مسائل پر چسپاں کرنا اور ان سے تاویل کرتے ہوئے یا تحریف معنوی ولفظی کرتے ہوئے استدلال کرنا
(4) یہ لوگ اپنے خود ساختہ عقائد و اعمال کے سبب لوگوں کے اصل اور خالص دین سے دور کیے جانے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔
(5) ان اہل بدعت کے سبب لوگوں میں سنت رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم مفقود و یتیم ہو کر رہ گئی ہے۔
(6) ان لوگوں کی وجہ سے شرک وبدعات ہر گزرتے دن کے ساتھ عام ہو رہے ہیں
(7) صحیح العقیدہ، متبع سنت لوگوں کے سب سے زیادہ مخالف اور ان کے خلاف نفرت آمیز ،غلط پیغام عام کرنے والے یہ اہل بدعت ہی ہیں۔
(8) اہل بدعت میں سے کسی کو قرآن وحدیث کا استاذ مقرر کرنا درحقیقت انہیں عزت وتکریم دینا ہے
جبکہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:

“ﻣﻦ ﻭﻗﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﺪﻋﺔ ﻓﻘﺪ ﺃﻋﺎﻥ ﻋﻠﻰ ﻫﺪﻡ اﻹﺳﻼﻡ”

جس شخص نے بدعتی کی تعظیم وعزت کی تو درحقیقت اس نے اسلام کو گرانے پر مدد کی۔
[الشريعة للآجري :(2040) سنده حسن لذاته]

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻨﻀﺮ اﻷﺯﺩﻱ ﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺼﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ اﻟﻔﻀﻴﻞ ﻳﻘﻮﻝ: ﻣﻦ ﺃﺣﺐ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﺪﻋﺔ ﺃﺣﺒﻂ اﻟﻠﻪ ﻋﻤﻠﻪ ﻭﺃﺧﺮﺝ ﻧﻮﺭ اﻹﺳﻼﻡ ﻣﻦ ﻗﻠﺒﻪ

امام فضیل بن عیاض رحمه الله تعالى فرماتے ہیں:
جو شخص کسی بدعتی سے محبت کرتا ہے الله تعالی اس کے عمل ضائع فرما دیتے ہیں اور اس کے دل سے اسلام کا نور نکال باہر کرتے ہیں
[حلية الأولياء لأبى نعيم الأصبهاني: 8/ 103 صحیح]
تو ہمارے ایمان وتقوی کا تقاضا ہے کہ کبھی بھی اہل بدعت سے قرآن و حدیث کی تعلیم کے لیے خدمات حاصل نہ کی جائیں نہ ان کی مجلس اختیار کریں۔
سلف صالحین اہل بدعت کے بارے میں کس قدر محتاط تھے ملاحظہ فرمائیں:
امام فضیل بن عیاض رحمه الله تعالى نے فرمایا:

ﺇﻥ اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ ﻭﻣﻼﺋﻜﺘﻪ ﻳﻄﻠﺒﻮﻥ ﺣﻠﻖ اﻟﺬﻛﺮ ﻓﺎﻧﻈﺮ ﻣﻊ ﻣﻦ ﻳﻜﻮﻥ ﻣﺠﻠﺴﻚ ﻻ ﻳﻜﻮﻥ ﻣﻊ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﺪﻋﺔ ﻓﺈﻥ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻻ ﻳﻨﻈﺮ ﺇﻟﻴﻬﻢ ﻭﻋﻼﻣﺔ اﻟﻨﻔﺎﻕ ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻡ اﻟﺮﺟﻞ ﻭﻳﻘﻌﺪ ﻣﻊ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﺪﻋﺔ. ﻭﺃﺩﺭﻛﺖ ﺧﻴﺎﺭ اﻟﻨﺎﺱ ﻛﻠﻬﻢ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﺳﻨﺔ ﻭﻫﻢ ﻳﻨﻬﻮﻥ ﻋﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻝﺑﺪﻋﺔ

بے شک الله عزوجل اور فرشتے ذکر ( خالص قرآن وحدیث پر مشتمل جگہیں)کے حلقے ( کلاسیں) دیکھتے رہتے ہیں، پس آپ دیکھیں کہ آپ کن کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں بدعتی کے ساتھ آپ کی بیٹھک و تعلق نہیں ہونا چاہیے پس بلاشبہ الله تعالى ان کی طرف نہیں دیکھتے ( یعنی یہ لوگ رب العالمین کو پسند نہیں) اور بندے کا بدعتی کے ساتھ اٹھنا،بیٹھنا نفاق کی علامت ہے۔
میں نے ( امت کے بہت سے )بہترین لوگوں کو پایا ہے ( یعنی جن میں رب العالمین نے خیر رکھی تھی) وہ سب سنت کی پیروی کرنے والے تھے اور اہل بدعت ( کے ساتھ تعلق ومجلس قائم کرنے) سے منع کرنے والے تھے۔
[حلية الأولياء لأبى نعيم الأصبهاني: 8/ 104 واللفظ له ،شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة :(265) صحیح]
اہل بدعت سے کنارہ کرنے کا حکم:

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﻌﺎﺫ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻲ، ﺣﺪﺛﻨﺎ اﺑﻦ ﻋﻮﻥ, ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﻣﺤﻤﺪ ﻳﺮﻯ ﺃﻥ ﻫﺬﻩ اﻵﻳﺔ ﻧﺰﻟﺖ ﻓﻲ ﺃﻫﻞ اﻷﻫﻮاء : {ﻭﺇﺫا ﺭﺃﻳﺖ اﻟﺬﻳﻦ ﻳﺨﻮﺿﻮﻥ ﻓﻲ ﺁﻳﺎﺗﻨﺎ ﻓﺄﻋﺮﺽ ﻋﻨﻬﻢ}، ﻭﻗﺮﺃ اﺑﻦ ﻋﻮﻥ ﺣﺘﻰ ﺧﺘﻢ اﻵﻳﺔ.

ثقة متقن امام تابعی کبیر محمد بن سیرین رحمه الله تعالی سمجھتے تھے کہ یہ آیت خواہش پرست اہل بدعت کے بارے میں بھی نازل ہوئی ہے اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات کے بارے میں (فضول) بحث کرتے ہیں( یعنی باطل تاویل ومعنی ) تو ان سے کنارہ کر۔ اور ابن عون نے اس آیت کو آخر تک پڑھا اور مکمل کیا۔
[القدر للفريابي: 377، 378 سنده صحيح]

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺧﻠﻴﻔﺔ اﻟﻔﻀﻞ ﺑﻦ اﻟﺤﺒﺎﺏ، ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻛﺜﻴﺮ(هو العبدي قلت: ثقة على الراجح )، ﻋﻦ ﺷﻌﺒﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﺯﻳﺪ ( والصواب سعيد )ﺑﻦ ﻭﻫﺐ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻗﺎﻝ: ﻟﻦ ﻳﺰاﻝ اﻟﻨﺎﺱ ﺑﺨﻴﺮ ﻣﺎ ﺃﺗﺎﻫﻢ اﻟﻌﻠﻢ ﻣﻦ ﻗﺒﻞ ﺃﻛﺎﺑﺮﻫﻢ، ﻭﺫﻭﻱ ﺃﺳﻼﻓﻬﻢ، ﻓﺈﺫا ﺃﺗﺎﻫﻢ ﻣﻦ ﻗﺒﻞ ﺃﺻﺎﻏﺮﻫﻢ ﻫﻠﻜﻮا ﻫﻜﺬا ﺭﻭاﻩ ﺷﻌﺒﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﻭﻫﺐ ، ﻭﺗﺎﺑﻌﻪ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ
[المعجم الكبير للطبراني: 8591 ،8592 ،8589 ،8590 ، جامع معمر بن راشد: 20446 ،20483، شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة: 101، التاريخ الكبير السفر الثالث: 3542، الفقيه والمتفقه:2/ 155،جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر: 1057، 1058، 1060 سنده صحيح]
ﺃﺧﺒﺮﻛﻢ ﺃﺑﻮ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺣﻴﻮﻳﻪ ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻳﺤﻴﻰ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺳﻔﻴﺎﻥ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻭﻫﺐ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻗﺎﻝ: ﻻ ﻳﺰاﻝ اﻟﻨﺎﺱ ﺑﺨﻴﺮ ﻣﺎ ﺃﺗﺎﻫﻢ اﻟﻌﻠﻢ ﻣﻦ ﻗﺒﻞ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻭﺃﻛﺎﺑﺮﻫﻢ، ﻓﺈﺫا ﺃﺗﺎﻫﻢ اﻟﻌﻠﻢ ﻣﻦ ﻗﺒﻞ ﺃﺻﺎﻏﺮﻫﻢ، ﻓﺬﻟﻚ ﺣﻴﻦ ﻫﻠﻜﻮا.
[الزهد والرقائق لابن المبارك: 815 صحيح]
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻓﺮاﺱ، ﺑﻤﻜﺔ ﺃﺑﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺣﻔﺺ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﺠﻤﺤﻲ ﺛﻨﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻌﺰﻳﺰ، ﺛﻨﺎ ﻣﺴﻠﻢ ﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ، ﺛﻨﺎ ﺷﻌﺒﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻭﻫﺐ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻗﺎﻝ:ﻻ ﻳﺰاﻝ اﻟﻨﺎﺱ ﺑﺨﻴﺮ ﻣﺎ ﺃﺧﺬﻭا اﻟﻌﻠﻢ ﻋﻦ ﺃﻛﺎﺑﺮﻫﻢ ﻭﻋﻦ ﺃﻣﻨﺎﺋﻬﻢ ﻭﻋﻠﻤﺎﺋﻬﻢ ﻓﺈﺫا ﺃﺧﺬﻭﻩ ﻣﻦ ﺃﺻﺎﻏﺮﻫﻢ ﻭﺷﺮاﺭﻫﻢ ﻫﻠﻜﻮا.
[المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقى: 275 صحيح]

أصاغر سے مراد دو طرح کے لوگ ہیں:
(1) وہ لوگ جو فتوی دینے کے اہل نہیں مگر فتوی دیتے ہیں اور وہ لوگ جو عالم نہیں اور علم کے بغیر فتوی دیتے ہیں ۔
(2) وہ لوگ مراد ہیں جو بدعتی اور خواہش پرست ہیں وہ عمر میں بڑا ہونے کے باوجود بھی اصاغر ہی ہیں۔

ﻗﺎﻝ اﺑﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ: اﻷﺻﺎﻏﺮ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ اﻟﺒﺪﻉ.
[شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة: 102]
ﻗﺮﺃﺕ ﻋﻠﻰ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻏﺎﻟﺐ اﻟﻔﻘﻴﻪ( هو أبو بكر البرقاني )، ﻋﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ اﻟﻤﺰﻛﻲ، ﺃﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ اﻟﺜﻘﻔﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﺤﻠﺒﻲ( هو اﺑﻦ ﻋﻨﺒﺴﺔ ﺃﺑﻮ ﺣﻔﺺ اﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺑﺎﺑﻦ ﺃﺑﻲ اﻟﻤﻀﺎء اﻟﺤﻠﺒﻲ وكان ثقة ، ﻳﻘﻮﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ ﺻﺎﻟﺢ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ، ﻭﺫﻛﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻋﻦ اﺑﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ، ﻓﻲ ﺃﺷﺮاﻁ اﻟﺴﺎﻋﺔ: ﺃﻥ ﻳﻠﺘﻤﺲ اﻟﻌﻠﻢ ﻋﻨﺪ اﻷﺻﺎﻏﺮ ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺻﺎﻟﺢ: ﻓﺴﺄﻟﺖ اﺑﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ: ﻣﻦ اﻷﺻﺎﻏﺮ؟ ﻗﺎﻝ: ﺃﻫﻞ اﻟﺒﺪﻉ.
[الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع : 160 1/ 137 صحيح]

معلوم ہوا اہل بدعت سے علم حاصل کرنا باعث ہلاکت یے۔

“ابن طاوس کا اہل بدعت کی غلط بات اور تعبیر و تفسیر پر اپنے بیٹے کو کان میں انگلیاں ڈالنے کا پرزور طریقے سے کہنا”

ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ، ﻋﻦ ﻣﻌﻤﺮ، ﻗﺎﻝ: ﻛﻨﺖ ﻋﻨﺪ اﺑﻦ ﻃﺎﻭﺱ( هو عبد الله أبو محمد)، ﻭﻋﻨﺪﻩ اﺑﻦ ﻟﻪ، ﺇﺫ ﺃﺗﺎﻩ ﺭﺟﻞ ﻳﻘﺎﻝ ﻟﻪ: ﺻﺎﻟﺢ، ﻳﺘﻜﻠﻢ ﻓﻲ اﻟﻘﺪﺭ ﻓﺘﻜﻠﻢ ﺑﺸﻲء ﻓﺘﻨﺒﻪ، ﻓﺄﺩﺧﻞ اﺑﻦ ﻃﺎﻭﺱ ﺇﺻﺒﻌﻴﻪ ﻓﻲ ﺃﺫﻧﻴﻪ، ﻭﻗﺎﻝ ﻻﺑﻨﻪ: ﺃﺩﺧﻞ ﺃﺻﺎﺑﻌﻚ ﻓﻲ ﺃﺫﻧﻴﻚ ﻭاﺷﺪﺩ، ﻓﻼ ﺗﺴﻤﻊ ﻣﻦ ﻗﻮﻟﻪ ﺷﻴﺌﺎ ﻓﺈﻥ اﻟﻘﻠﺐ ﺿﻌﻴﻒ.
[مصنف عبد الرزاق: 20099 سنده صحيح]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﻌﻤﺮ، ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ اﺑﻦ ﻃﺎﻭﻭﺱ ﺟﺎﻟﺴﺎ, ﻭﻋﻨﺪﻩ اﺑﻨﻪ, ﻓﺠﺎءﻩ ﺭﺟﻞ ﻣﻦ اﻟﻤﻌﺘﺰﻟﺔ ﻓﺘﻜﻠﻢ ﻓﻲ ﺷﻲء ﻭﻫﻮ ﻳﻌﺮﺽ ﺑﺎﺑﻦ ﻃﺎﻭﻭﺱ ﻓﺨﻴﺒﻪ ﺑﻜﻠﻤﺔ ﻓﺄﺩﺧﻞ اﺑﻦ ﻃﺎﻭﻭﺱ ﺇﺻﺒﻌﻴﻪ ﻓﻲ ﺃﺫﻧﻴﻪ ﻭﻗﺎﻝ ﻻﺑﻨﻪ: ﻳﺎ ﺑﻨﻲ ﺃﺩﺧﻞ ﺇﺻﺒﻌﻴﻚ ﻓﻲ ﺃﺫﻧﻴﻚ ﻛﻲ ﻻ ﺗﺴﻤﻊ ﻣﻦ ﻗﻮﻟﻪ ﺷﻴﺌﺎ؛ ﻓﺈﻥ ﻫﺬا اﻟﻘﻠﺐ ﺿﻌﻴﻒ، ﻗﺎﻝ: ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: ﺃﻱ ﺑﻨﻲ اﺷﺪﺩ ﺣﺘﻰ ﻗﺎﻡ اﻵﺧﺮ.
[التاريخ الكبير لابن أبي خيثمة السفر الثانى: 1185 سنده صحيح]

امام دارمی نے اپنی سنن میں ایک عنوان یوں قائم کیا ہے:

ﺑﺎﺏ اﺟﺘﻨﺎﺏ ﺃﻫﻞ اﻷﻫﻮاء، ﻭاﻟﺒﺪﻉ، ﻭاﻟﺨﺼﻮﻣﺔ
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺣﺮﺏ، ﻋﻦ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ، ﻋﻦ ﺃﻳﻮﺏ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻗﻼﺑﺔ ﻻ ﺗﺠﺎﻟﺴﻮا ﺃﻫﻞ اﻷﻫﻮاء ﻭﻻ ﺗﺠﺎﺩﻟﻮﻫﻢ، ﻓﺈﻧﻲ ﻻ ﺁﻣﻦ ﺃﻥ ﻳﻐﻤﺴﻮﻛﻢ ﻓﻲ ﺿﻼﻟﺘﻬﻢ، ﺃﻭ ﻳﻠﺒﺴﻮا ﻋﻠﻴﻜﻢ ﻣﺎ ﻛﻨﺘﻢ ﺗﻌﺮﻓﻮﻥ
[سنن دارمی: 405)ل ،القدر للفريابي: 366 370۔ سنده صحيح یہ اثر کئ کتب میں موجود ہے۔]
بدعتی شخص سے سیدنا ابن عمر رضی الله عنہ کی بیزاری
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﺎﺻﻢ، ﺃﻧﺒﺄﻧﺎ ﺣﻴﻮﺓ ﺑﻦ ﺷﺮﻳﺢ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺑﻮ ﺻﺨﺮ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﺃﻧﻪ ﺟﺎءﻩ ﺭﺟﻞ ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻥ ﻓﻼﻧﺎ ﻳﻘﺮﺃ ﻋﻠﻴﻚ اﻟﺴﻼﻡ. ﻗﺎﻝ: ﺑﻠﻐﻨﻲ ﺃﻧﻪ ﻗﺪ ﺃﺣﺪﺙ، ﻓﺈﻥ ﻛﺎﻥ ﻗﺪ ﺃﺣﺪﺙ، ﻓﻼ ﺗﻘﺮﺃ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺴﻼﻡ
[سنن دارمی: 407 واللفظ له ،مسند أحمد بن حنبل : 7208، سنن ترمذی: 2152 سنده حسن لذاته لأجل أبو صخر هو صدوق حسن الحديث]
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ، ﻋﻦ ﺃﺳﻤﺎء ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ، ﻗﺎﻝ: ﺩﺧﻞ ﺭﺟﻼﻥ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻷﻫﻮاء ﻋﻠﻰ اﺑﻦ ﺳﻴﺮﻳﻦ ﻓﻘﺎﻻ: ﻳﺎ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ ﻧﺤﺪﺛﻚ ﺑﺤﺪﻳﺚ؟ ﻗﺎﻝ: ﻻ، ﻗﺎﻻ: ﻓﻨﻘﺮﺃ ﻋﻠﻴﻚ ﺁﻳﺔ ﻣﻦ ﻛﺘﺎﺏ اﻟﻠﻪ؟ ﻗﺎﻝ: ﻻ، ﻟﺘﻘﻮﻣﺎﻥ ﻋﻨﻲ ﺃﻭ ﻷﻗﻮﻣﻦ، ﻗﺎﻝ: ﻓﺨﺮﺟﺎ، ﻓﻘﺎﻝ: ﺑﻌﺾ اﻟﻘﻮﻡ. ﻳﺎ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ، ﻭﻣﺎ ﻛﺎﻥ ﻋﻠﻴﻚ ﺃﻥ ﻳﻘﺮﺁ ﻋﻠﻴﻚ ﺁﻳﺔ ﻣﻦ ﻛﺘﺎﺏ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ؟ ﻗﺎﻝ: ﺇﻧﻲ ﺧﺸﻴﺖ ﺃﻥ ﻳﻘﺮﺁ ﻋﻠﻲ ﺁﻳﺔ ﻓﻴﺤﺮﻓﺎﻧﻬﺎ، ﻓﻴﻘﺮ ﺫﻟﻚ ﻓﻲ ﻗﻠﺒﻲ
[سنن دارمی : 411 واللفظ له ، القدر للفريابي :373 الإبانة الكبرى لابن بطة :2/ 445 : 398۔ صحيح]
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺳﻌﻴﺪ، ﻋﻦ ﺳﻼﻡ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﻄﻴﻊ، ﺃﻥ ﺭﺟﻼ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ اﻷﻫﻮاء، ﻗﺎﻝ: ﻷﻳﻮﺏ( هو السختياني)، ﻳﺎ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ، ﺃﺳﺄﻟﻚ ﻋﻦ ﻛﻠﻤﺔ؟ ﻗﺎﻝ: ﻓﻮﻟﻰ، ﻭﻫﻮ ﻳﺸﻴﺮ ﺑﺄﺻﺒﻌﻪ ﻭﻻ ﻧﺼﻒ ﻛﻠﻤﺔ ﻭﺃﺷﺎﺭ ﻟﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﺨﻨﺼﺮﻩ اﻟﻴﻤﻨﻰ
[سنن دارمی : 412 واللفظ له ،الجعديات / مسند علي بن الجعد : 1237 ،القدر للفريابي :374 وغيره ۔ صحيح]
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺯاﺋﺪﺓ، ﻋﻦ ﻫﺸﺎﻡ، ﻋﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﻭاﺑﻦ ﺳﻴﺮﻳﻦ: ﺃﻧﻬﻤﺎ ﻗﺎﻻ: ﻻ ﺗﺠﺎﻟﺴﻮا ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻷﻫﻮاء، ﻭﻻ ﺗﺠﺎﺩﻟﻮﻫﻢ، ﻭﻻ ﺗﺴﻤﻌﻮا ﻣﻨﻬﻢ
[سنن دارمی : 415 ،القدر للفريابي :373 ،الإبانة الكبرى لابن بطة: 2/ 444 (395) و2/ 464 (458) ،شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة : 240 ،جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر :(1803)، الطبقات الكبرى لابن سعد:7/ 127،أحوال الرجال: ص 21۔ صحيح]
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ