سوال (1575)
کیا ایک قربانی پورے گھر کی طرف سے ہے ؟
جواب
یہ جدید دور کے الجھے ہوئے مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے ، اس کی اساس اور بنیاد کچھ اور ہے ، اگر آپ غور کریں کہ دین اسلام میں بنیادی طور پہ جو چیز سمجھائی گئی ہے ، وہ یہ ہے کہ مرد گھر کا سربراہ ہے ، مرد نے کمانا ہوتا ہے ، عورت نے گھر کو سنبھالنا ہوتا ہے ، یہ سوال پیدا ہی اس وقت ہوئے ہیں جب ہماری خواتین نے پیسہ کمانا شروع کردیا ہے ، جب مرد گھر کا بڑا اور سربراہ ہے تو قربانی بھی مرد کرے گا ، باقی سب ماتحت ہیں، میری یہ گزارش ہوگی کہ برے کو مت پکڑیں ، بلکہ برے کی ماں کو پکڑیں ، برے کی ماں کیا ہے ، وہ یہ ہے کہ مرد کو گھر کی سربراہی سے محروم کرنا ، اس کے نتیجے میں پھر اس قسم کے مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ
عطاء بن یسار رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
“سَأَلْتُ أَبَا أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيَّ: كَيْفَ كَانَتِ الضَّحَايَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ: كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ، وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، فَيَأْكُلُونَ، وَيُطْعِمُونَ، حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ، فَصَارَتْ كَمَا تَرَى” [سنن الترمذي : 1505]
«میں نے ابو ایوب انصاری ؓ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوتی تھیں؟ انہوں نے کہا: ایک آدمی اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا، وہ لوگ خود کھاتے تھے اور دوسروں کو کھلاتے تھے یہاں تک کہ لوگ (کثرت قربانی پر) فخر کرنے لگے، اور اب یہ صورت حال ہوگئی جو دیکھ رہے ہو»
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ