آئی سی سی نے ٹرانزجینڈر خواتین پر خواتین کے بین الاقوامی کرکٹ مقابلوں میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی ہے۔ یعنی جو مرد خود کو بطور عورت شناخت کرواتے ہیں وہ اب خواتین کی ٹیم میں شمولیت کی “عیاشی” سے محروم رہیں گے۔
آئی سی سی کے ترجمان کی توجیہہ نہایت معنی خیز اور لائق توجہ ہے۔ اس فیصلے کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ قدم ویمن کرکٹ کی “سالمیت”(انہوں نے لفظ integrity استعمال کیا جس کا بنیادی مطلب ٹھوس اخلاقیات ہے)، “حفاظت”(safety)، “انصاف” (fairness) اور “شمولیت”(inclusion) کے پیش نظر اٹھایا گیا ہے۔۔۔!!!
تو ہم بھی تو یہی رونا روتے ہیں کہ پیدائشی، بائیولوجیکلی نارمل مردوں کو کسی “دماغی خلل” کی وجہ سے عورت بننے کی اجازت دینا اور پھر زندگی کے ہر شعبے میں ان کے عورتوں میں گھسنے کو نارملائز کرنا اخلاقیات، حفاظت، انصاف اور شمولیت کے تمام اصولوں کے منافی ہے۔
شکر ہے سپورٹس کی دنیا میں آئی سی سی کو تو عقل آئی۔ امید ہے جلد ہی دنیا کے تمام کھیلوں میں یہ اصول اپلائی ہو جائے گا اور اسی سے عام زندگی میں بھی ٹرانزجینڈرز کے بارے میں ہمارے مؤقف کو تقویت ملے گی۔
ٹرانسجینڈرز اور ایل جی بی ٹی کیو کے لیے کوشاں اور متحرک لابی زندگی کے ہر شعبے میں ٹرانسجینڈرز کو متوازی نمائندگی کا شدت سے مطالبہ کرتی آئی ہے۔ اس سلسلے میں مغرب کے بڑے بڑے طاقتور اور مالیاتی ادارے دنیا بھر کے ترقی پذیر اور مسلم ممالک پر خاص کر  اپنے پروگرام کے تحت پریشر ڈالتے ہیں تاکہ اس فتنے کو ان ممالک میں عام کیا جائے۔ اس طرح جن ممالک میں ان پر پابندی ہے وہاں پر مالیاتی اور تجارتی پابندیاں بھی عاید کی جاتی ہیں۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ لبرل اصولوں کے مطابق آئی سی سی کا یہ فیصلہ ٹرانزجینڈرز کے ساتھ شدید زیادتی ہے اور امید ہے کہ جلد ہی ایل جی بی ٹی طبقہ خوب کھپ ڈالے گا۔

ڈاکٹر رضوان اسد خان