ایک سوال بڑی شدت سے سامنے آ رہا ہے، بلکہ ایک اعتراض بڑی شدت سے سامنے آ رہا ہے کہ فلسطینی حماس والے نہںتے اور سویلین،اسرائیلی شہریوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔
بظاہر بہت بری بات ہے، مگر سویلینز کا کیا قصور؟؟
لیکن کیا یہ اتنی سادہ بات ہے کہ انسان دھوکہ کھا جائے؟؟
ایسا ہرگز نہیں ان کو میں سویلین نہیں کہہ سکتا، کوئی کہے تو کہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ اسرائیل میں اٹھارہ برس کی عمر کے بعد ہر مرد و زن کے لیے فوجی تربیت لازمی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جنگ کی صورت میں وہ متبادل فوجی شمار کیا جائے گا کہ جس کی خدمات کسی وقت بھی طلب کی جا سکتی ہیں۔
اس کے باوجود میں اس کو حربی یعنی جنگجو نہیں کہتا احباب کی خوشی کی خاطر سویلین شمار کر لیتا ہوں لیکن سوال یہ منہ کھولے کھڑا ہے کہ کیا ایک سویلین کو حق ہے کہ وہ بندوق کے زور پر یا کچھ بندوق برداروں کو ساتھ لے کر آئے، اس کے ساتھ ساتھ اس کے پاس بلڈوزر بھی ہوں اور بلڈوزروں کے پیچھے ٹینک کھڑے ہوں۔ پھر ان ٹینکوں کے اوپر خوفناک قسم کے جنگی طیارے چھایا چھتر کیے اڑ رہے ہوں۔
وہ سویلین آئے اور آ کر ایک بستی کو خالی کروائے پھر اس بستی پر بلڈوزر پھروانے کے بعد وہاں اپنا گھروندہ آباد کرے۔
وہ تصویر کس کس نے دیکھی ہے جس میں ایک فلسطینی بزرگ اپنی بوڑھی اہلیہ کے ساتھ اس گھر کے دروازے پر کھڑے ہیں، جس سے ایک صیہیونی جوڑا عجیب مالکانہ غرور لیے نکل رہا ہے۔ اور یہ تھکا ہارا فلسطینی جوڑا ٹوٹی نظروں سے اور حسرت بھری نگاہوں سے اس گھر کو دیکھ رہا ہے، جس گھر میں اس نے آنکھ کھولی، بچپن بیتا، لڑکپن گزرا اور جب آرام کی عمر آئی تو یہ سویلین بلڈوزر لے کر آ گئے۔
مان لیا کہ یہ ا سرائیلی سویلین ہیں، لیکن یہ بہت زہریلے سویلین ہیں۔
تسلیم! کہ یہ حربی نہیں، جنگجو نہیں لیکن یہ قبضہ گیر بہت ظالم ہیں کہ جن کو کبھی خیال نہ آیا کہ انہوں نے اپنی بستیاں بسانے کے لیے کتنی بستیاں اجاڑی ہیں۔
تھوڑا پیچھے چلیے سلطنت عثمانیہ کمزور ہو کر ٹوٹ بکھر رہی تھی۔ مغرب کا عفریت اس کے حصے بخرے کرنے جا رہا تھا۔ اس بیچ یہودیوں کا معاملہ سامنے آیا۔ اسٹریلیا نے کہا ہمارے پاس آ جاؤ ایک علاقہ مختص کر دیتے ہیں، بعض یورپی ممالک اور روس کی طرف سے بھی پیشکش تھی لیکن ارض موعود کے خواب نے۔ یہود کو سب کچھ بھلا رکھا تھا، دیوار گریہ سے لپٹ کر رونا ان کو ہر رونے سے زیادہ عزیز تھا۔
ان کی ضد تھی کہ ہمیں فلسطین چاہیے۔
برطانیہ کا انوکھا لاڈلا کھیلن کو چاند مانگ رہا تھا۔ سو 1947 میں ایک ووٹنگ کے ذریعے ان کو فلسطین کے علاقے میں بسانے کا فیصلہ ہوا اور اس کے لیے لازم تھا کہ عربوں کو بے گھر کیا جاتا فلسطین سلطنت عثمانیہ کے زیر تسلط تھا جو ان سے چھن کر برطانیہ کے ہاتھ آیا۔ منحوس برطانوی استعمار نے اس خون ریزی کی بنیاد رکھی، جس نے جانے کتنی نسلوں کا خون پیا۔ مجھے ہمیشہ حیرت ہوتی ہے کہ برطانیہ کو کس طرح ایک مہذب ملک کہا جا سکتا ہے۔
برطانیہ کی زیر سرپرستی یہودی ارض مقدس میں آباد ہونے لگے۔ عرب ان کے آنے سے بے چین ہو رہے تھے لیکن بے بس تھے۔ آہستہ آہستہ ان کی آبادی کا تناسب بدلنا شروع ہوا بے۔ کمزورفلسطینی سمٹتے گئے لمبا قصہ ہے ایک سے زیادہ جنگیں ہوئیں اور فلسطینی مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں سمٹ آئے۔ آپ جانتے ہیں غزہ کی پٹی آپ کے اس لاہور سے تین گنا سے بھی شاید کم ہو اور اس کو دنیا کی سب سے بڑی جیل کہا جاتا ہے اور جو سرحد سے پرے بستیوں سے یہودی فلسطینیوں کے خوف سے دوڑ رہے ہیں کچھ گرفتار بھی ہو رہے ہیں یہ سب غزہ کے نواح میں بستیاں بسائی گئی ہیں۔
اور پچھلے 50 برس میں یروشلم سے چلتے چلتے پورے علاقے میں یہ بستیاں پھیل چکی ہیں اور غزہ کے نواح کی بستیاں وہ بستیاں ہیں جن کو موجودہ اقوام متحدہ نے بھی غیر قانونی قرار دے رکھا ہے۔ آپ کے اندر اگر انسانیت کی معمولی سی رمق باقی ہے اور ضمیر میں اگر کچھ زندگی موجود ہے تو دل پر ہاتھ رکھ کے فیصلہ کیجئے کیا ان بستیوں کے بسنے والوں کو “سویلین” قرار دیا جا سکتا ہے۔؟؟؟
یاد رکھیے گا جناب یہ کوئی وراثت کا جھگڑا نہیں ہے گن پوائنٹ پر پوری بستی پر قبضے کا جھگڑا ہے۔

ابوبکر قدوسی