دوست کا سوال ہے کہ کیا موسیقی کی حرمت کے بارے فقہاء کا اختلاف ہے؟ جواب: ہمارے مطالعہ کے مطابق فقہاء کا موسیقی کی حرمت پر اتفاق ہے سوائے اس کے کہ جس کے اختلاف کا اعتبار نہیں ہے۔ اصل میں موسیقی کے جواز کے بارے گفتگو کرنے والے ایک بات کا جانتے بوجھتے ذکر نہیں کرتے اور وہ غناء اور موسیقی کا فرق ہے۔ بعض سلف اور فقہاء سے جواز کے جو اقوال ملتے ہیں تو وہ غناء کے جواز سے متعلق ہیں نہ کہ آلات موسیقی کی اباحت کے بارے۔ یہ بات درست ہے کہ بعض اوقات غناء آلات موسیقی کے ساتھ جمع ہو جاتا ہے تو اب یہ حرام ہے۔ اور اس کو بھی بعض اوقات محض غناء کہہ کر حرام کہہ دیا جاتا ہے لیکن اس سے قائل کی مراد محض غناء نہیں بلکہ آلات موسیقی کے ساتھ غناء ہوتا ہے اور یہ اس کے سیاق کلام اور مکمل بیان سے ظاہر ہوتا ہے۔
اور غناء سے مراد اونچی آواز سے ترنم میں شعر وغیرہ کا گنگنانا ہے مثلا حُدی، غناء کی ایک قسم ہے یعنی عرب دوران سفر اپنے اونٹوں کو ہانکنے کے لیے ترنم سے کچھ گنگناتے تھے تا کہ اونٹ تیز چلیں۔ عربوں میں خوشی وغیرہ کے مواقع پر اپنے آباء واجداد کے جنگ وجدال کی بابت شاعری کو بھی گنگنانے کا رواج عام تھا کہ جس میں ان کے قبیلے کے بڑوں کی بہادری، شجاعت اور سخاوت کے قصے عام ہوتے تھے۔ آج کل اس کی جگہ ملی نغموں نے لے لی ہے۔ اسی طرح ماں کا بچے کو سلاتے وقت لوری دینا بھی غناء کی ایک قسم ہے۔ عصر حاضر میں اناشید بلکہ ہمنگ وغیرہ بھی غناء کی ایک صورت ہیں اور جائز ہے البتہ ووکل میوزک جائز نہیں ہے۔ غناء میں ضروری نہیں کہ شعر ہی ہو، وہ اس کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ غناء اصلا جائز اور مباح ہے الا یہ کہ کلام شرکیہ یا فحش یا ظلم وزیادتی پر ابھارنے والا یا شرعا ممنوع کلام کی کسی اور قسم میں سے ہو۔
رہی موسیقی یعنی آلات موسیقی کا استعمال کہ جنہیں احادیث میں معازف کہا گیا ہے تو اس کی حرمت پر فقہاء کا اتفاق ہے۔ اور کتاب وسنت کی صریح نصوص موجود ہیں کہ جو آلات موسیقی کی حرمت کو بیان کرتی ہیں۔ آلات موسیقی میں پرانے زمانے میں بانسری اور ڈھول وغیرہ ہوتے تھے جبکہ آجکل اس کی مثالوں میں ہارمونیم، پیانو اور گٹار وغیرہ ہیں۔ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ لوگ شراب، زنا، ریشم اور آلات موسیقی کو حلال کر لیں گے۔ اگرچہ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اس روایت کو منقطع السند کہا ہے کہ امام بخاری کا ہشام بن عمار سے سماع ثابت نہیں ہے لیکن جلیل القدر ائمہ محدثین نے ابن حزم رحمہ اللہ کے اس اعتراض کو لغو قرار دیا ہے جیسا کہ امام ابن صلاح وغیرہ نے لکھا ہے کہ ہشام بن عمار، امام بخاری کے استاذ ہیں اور ان کی ملاقات ثابت ہے۔
ابن حزم رحمہ اللہ آلات موسیقی کے بھی جواز کے قائل ہیں لیکن سلف کا معاملہ یہ نہیں۔ سلف صرف غناء کی بعض صورتوں کے جواز کے قائل تھے اور آلات موسیقی کو حرام قرار دیتے تھے۔ رہی امام ابن حزم رحمہ اللہ کی بات تو وہ اکثر وبیشتر دو انتہاؤں پر رہتے ہیں، اعتدال انہیں بہت ہی کم نصیب ہوا ہے۔ فقہاء پر تنقید کرتے ہیں تو ادب کا دامن چھوڑ بیٹھتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ دنیا میں بے وقوفوں کی اتنی قسمیں ہیں کہ جتنی کھجور کی، اور کبھی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں اور ابو حنیفہ جھوٹے ہیں۔
ابن حزم رحمہ اللہ نے جس طرح سے قیاس کے اصول کا رد کیا ہے اور صحیحین کی حدیث پر جرح کی ہے، وہ اتنا تو ثابت کرتا ہے کہ ان کا ذہن ایک تخلیق کار کا ذہن ہے البتہ رد عمل کی انتہاء میں ہمیشہ انتہاؤں میں جینے کا عادی ہو چکا ہے۔ جس جذب سے انہوں نے اپنے عشق ومعشوقی، عورتوں کے جھرمٹ میں پلنے بڑھنے اور عورتوں کے اپنے نفس پر اثرات کے قصے بیان کیے ہیں، وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ فکر کے ساتھ اپنے مزاج میں بھی ایک علیحدہ ہی روح تھے۔ ابن حزم رحمہ اللہ نے اگرچہ اپنی طرف سے یہ عذر پیش کیا ہے کہ ان کے ایک آپریشن میں ان کی تلی نکال دی گئی تھی اور ان کی رائے ہے کہ ان کے مزاج میں یہ فساد اس تلی کے نکلنے سے پیدا ہوا ہے، واللہ اعلم
رہی مین اسٹریم لائن کے فقہاء کی بات تو ائمہ اربعہ اور ان کے ماننے والے آلات موسیقی کی حرمت کے قائل رہے ہیں، چاہے حنفی ومالکی ہوں، یا شافعی وحنبلی ہوں۔ اہل علم کی ایک جماعت مثلا امام ابن صلاح، امام قرطبی المالکی، امام بغوی الشافعی اور امام ابن قدامہ الحنبلی وغیرہ نے تو موسیقی کی حرمت پر فقہاء کا اجماع بھی نقل کیا ہے۔ امام ابن عبد البر المالکی لکھتے ہیں کہ سلف میں بعض سے غناء کا جو جواز منقول ہے تو اس سے مراد نَصب اور حُدی ہے۔ اور یہ دونوں قسمیں شعر کو ترنم کے ساتھ اونچی آواز سے گنگنانے میں شامل ہیں۔ البتہ بعض فقہاء نے غناء کو آلات موسیقی کے ساتھ غناء کے معنی میں بھی بیان کیا ہے۔ یہ فرق واضح رہنا چاہیے۔ اور اس کی وضاحت ان کے سیاق کلام اور مکمل بیان سے ہوتی ہے۔
فقہ حنفی اور موسیقی: أن الإمام أبا حنيفة يكره الغناء ويجعله من الذنوب وكذلك مذهب أهل الكوفة [روح المعانی: 11/69]۔ ترجمہ: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ گانے بجانے کو مکروہ اور گناہ قرار دیتے تھے اور یہی اہل کوفہ کا بھی مذہب ہے۔ وَالْمُذْهَبُ حُرْمَتُهُ مُطْلَقًا…وَلَا تُقْبَلُ شَهَادَةُ مَنْ يَسْمَعُ الْغِنَاءَ أَوْ يَجْلِسُ مَجْلِسَ الْغِنَاءِ [الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین: 5/482]۔ ترجمہ: مذہب حنفی میں گانا بجانا مطلقا حرام ہے۔۔۔اور اس شخص کی گواہی قابل قبول نہیں ہے جو گانا بجانا سنتا ہے یا گانے بجانے کی مجلس میں بیٹھتا ہے۔
فقہ مالکی اور موسیقی: عن إسحاق بن عيسى الطباع قال: سألت مالك بن أنس عما يترخص فيه أهل المدينة من الغناء؟ فقال: إنما يفعله عندنا الفـُسـّـاق [الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر للخلال: ص142]۔ ترجمہ: امام مالک رحمہ اللہ سے یہ سوال ہوا کہ اہل مدینہ گانے بجانے کو جائز سمجھتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا: ہمارے نزدیک فاسقوں کا مشغلہ ہے۔
فقہ شافعی اور موسیقی: وقال الإمام الشافعي: إن الغناء لهو مكروه يشبه الباطل، ومـن استكثر منه فهو سفيه ترد شهادته [الام: 6/209]۔ ترجمہ: امام شافعی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ گانا بجانا لہو ولعب میں سے ہے، مکروہ ہے بلکہ باطل سے مشابہت رکھتا ہے۔ جو اس میں بہت زیادہ مشغول ہو، تو وہ بے وقوف ہے اور اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔
فقہ حنبلی اور موسیقی: عن عبد الله بن أحمد بن حنبل قال: سألت أبي عن الغناء فقال: الغناء ينبت النفاق في القلب لا يعجبني [الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر للخلال: ص142]۔ ترجمہ: عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے گانے بجانے کے بارے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ گانا بجانا دل میں نفاق پیدا کرتا ہے اور مجھے پسند نہیں ہے۔
موسیقی قرآن اور حدیث کی روشنی میں ناجائز ہے اور فقہاء امت کے چاروں مکاتب فکر اس مسئلے پر متفق ہیں [اسلام اور موسیقی از مفتی شفیع رحمہ اللہ، ص 25]