سوال (2215)

کیا یہ صحیح ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ “ش” کی جگہ “س” پڑھتے تھے۔ امیہ نے احد احد پکارنے کی وجہ سے ان کی زبان پر جو کوئلہ رکھا تھا۔

جواب

حضرت بلال کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی زبان میں لکنت تھی، جس کی وجہ سے آپ شین کو سین پڑھتے تھے اور اس ضمن میں ایک واقعہ بھی عموماً بیان کیا جاتا ہے کہ بعض یہودیوں نے طعنہ دیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے مؤذن ایسا رکھا ہے، جسے شین اور سین کی تمیز نہیں تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے سے منع کردیا تو اس روز صبح نہیں ہو رہی تھی، پھر صحابی نے بارگاہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم میں حاضر ہو کر رات کے حوالے سے عرض کیا، پھر جبریل علیہ السلام حاضر ہوئے اور فرمایا: جب تک حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان نہیں دیں گے، صبح نہیں ہوگی تو پھر حضرت بلال نے اذان دی تو صبح ہوئی اور یہ بھی بیان کیاجاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بلال کا سین بھی اللہ تعالی کے نزدیک شین ہے۔
واقعہ کی تحقیق:
مذکورہ بالا واقعہ کو بعض مقررین بیان کرتے ہیں، مگر باوجود اس شہرت کے کسی بھی صحیح یا ضعیف سند سے حدیث کی کتابوں میں موجود نہیں ہے، اور اس ضمن میں جو حدیث بیان کی جاتی ہے کہ حضرت بلال کی “سین” اللہ تعالی کے نزدیک “شین” ہے-
یہ روایت بھی محدثین کرام کے نزدیک من گھڑت اور بے اصل ہے۔
علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے :

” كانَ مِنْ أَفْصَحِ النَّاسِ، لَا كَمَا يَعْتَقِدُهُ بَعْضُ النَّاسِ أَنَّ سِينَهُ كَانَتْ شِينًا، حَتَّى إِنَّ بَعْضَ النَّاسِ يَرْوِي حَدِيثًا فِي ذَلِكَ لَا أَصْلَ لَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ سِينَ بِلَالٍ عِنْدَ اللَّهِ شِينٌ ۔
[البداية والنهاية،ج:5، ص: 333، ط: دارالفکر بیروت]

حضرت بلال فصیح و بلیغ انسان تھے اور جو بات لوگوں نے گھڑلی ہے کہ حضرت بلال کی زبان میں لکنت تھی، یہاں تک کہ ایک روایت بیان کر ڈالی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال کا سین بھی اللہ تعالی کے نزدیک شین ہے، اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
علامہ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہےاور اگر ایسا ہوتا تو حضور علیہ السلام انہیں موذن ہی کیوں کر بناتے اور یوں تو دشمنانِ اسلام کو بہت کچھ کہنے کا موقع مل جاتا، اس لیے مذکورہ واقعہ بیان کرنے سے اجتناب لازم ہے۔
علامہ عجلونی نے” كشف الخفاء ومزيل الإلباس” میں اس روایت کو لکھنے کے بعد لکھا ہے کہ علامہ جلال الدین سیوطی نے الدرر میں فرمایا کہ امہات الکتب میں ایسا کچھ بھی وارد نہیں ہوا اور ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں اور علامہ جمال الدین مزی سے نقل کرتے ہوئے شیخ برہان سفاقسی فرماتے ہیں کہ عوام کی زبان پر تو ایسا مشہور ہے، لیکن اصل کتب میں ایسا کچھ بھی وارد نہیں ہوا-
علامہ بدر الدین زرکشی نے”التذکرۃ فی الأحاديث المشتھرۃ “میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ حافظ جمال الدین مزی فرماتے ہیں کہ یہ روایت عوام کی زبان پر تو مشہور ہے، لیکن اس بارے میں ہم نے امہات الکتب میں کچھ بھی نہیں دیکھا اور اس روایت کے بارے میں شیخ برہان الدین سفاقسی کا بھی یہی قول ہے۔
اس ساری تفصیل سے یہ واضح ہوا کہ یہ روایت من گھڑت اور بے اصل ہے، بلکہ درست یہ ہےکہ حضرت بلال فصیح و بلیغ اور خوبصورت آواز کے مالک تھے، جیسا کہ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ
جب عبد اللہ بن زید نے اذان کے متعلق اپنا خواب سنایا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا خواب سن کر ان کو حکم دیا:

“فقم مع بلال فالق عليه ما رايت فليؤذن به فإنه اندى صوتا منك۔۔۔”
[سنن ابی داود: 499۔ سنن ترمذی: 189]

ترجمہ:
” تم بلال کے ساتھ اٹھ کر جاؤ اور جو کلمات تم نے خواب میں دیکھے ہیں، وہ انہیں بتاتے جاؤ، تاکہ اس کے مطابق وہ اذان دیں، کیونکہ ان کی آواز تم سے بلند اور خوبصورت ہے۔
سنن ابی داود کی اس روایت میں “فإنه اندى صوتا منك” کے الفاظ ہیں اور ترمذی کی روایت میں” فإنه أندى وأمد صوتا منك” کے الفاظ ہیں۔
علامہ شوکانی نے “نیل الاوطار” میں “فإنه أندى صوتا منك” کے معنی لکھے ہیں : أي أحسن صوتاً منك ..
یعنی بلال خوبصورت آواز کے مالک ہیں۔
إمام ابن الأثير نے النھایة میں لکھا ہے۔أي أرفع وأعلى وقيل:
أحسن وأعذب یعنی بلال بلند و بالا اور میٹھی دلکش آواز کے مالک ہیں۔
خلاصہ کلام:
حضرت بلال رضی اللہ عنہ انتہائی فصیح و بلیغ تھے اور بہت خوب صورت، بلند و بالا اور شرین اور دلکش آواز کے مالک تھے اور یہ کہنا کہ “ان کی زبان میں لکنت تھی” سراسر غلط ہے۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

أحسنتم و بارك فيكم و عافاكم
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا سیدنا بلال رضی الله عنہ کے بارے میں فرمایا :
“فإنه أندى صوتا منك”
[مسند أحمد بن حنبل: 16478، سنن دارمی: 1225، تاريخ المدينة لابن شبة: 3/ 868، سنن ابن ماجہ: 706، المنتقی لابن الجارود: 158، صحیح ابن خزیمہ: 370، شرح معانی الآثار للطحاوى: 875 وغیرہ سنده حسن لذاته]
یہ روایت دلیل ہے کہ سیدنا بلال رضی الله عنہ کی زبان میں ذرہ برابر بھی لکنت نہیں تھی اور جہلا و قصہ گو بعض لوگوں نے جو غلط بات مشہور کر رکھی ہے، اس ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم میں اس کی بھی نفی اور رد ہے۔
سیدنا بلال رضی الله عنہ طویل مدت تک مدینہ طیبہ میں مسجد الرسول صلی الله علیہ وسلم کے مؤذن قائم رہے، مگر کسی نے ان کی اس کمزوری کو بیان نہیں کیا ہے، نہ ہی کتب صحاح ، مسانید، و معاجم و مصنفات وغیرہ میں اس طرح کی کوئی روایت موجود ہے، البتہ کتب موضوعات میں اس کا بے اصل ہونا ضرور موجود ہے، جیسا کہ فاضل بھائی مولانا کامران الہی ظہیر صاحب نے بعض کتب کے حوالے سے ذکر کیا ہے جزاه الله خيرا وبارك فيه
والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ