مسلم حکومتوں، عرب ریاستوں، مسلمان فوجوں، عوام اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے گلہ بالکل بجا لیکن گلہ تو مسلمان مذہبی قیادت سے بھی بنتا ہے۔

کیا ان حالات میں دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء، دارالعلوم کراچی، جامعہ بنوری ٹاؤن، جامعہ سلفیہ ، جامعہ محمدیہ، جامعہ رحمانیہ،جامعۃ الرشید، جامعہ حقانیہ، انڈیا، پاکستان ، بنگلہ دیش اور عالم عرب کے دیگر نامور جامعات اور شخصیات کا کوئی فرض نہیں بنتا کہ تمام دارالافتاؤں سے باضابطہ تحریری فتاوی جات جاری کرکے عالم اسلام اسلام کی حکومتوں، فوجوں اور مسلم عوام کی ذمہ داری کو بالتعیین واضح کردیا جائے؟؟؟

کیا عالم اسلام کے یہ دارالافتاء صرف نکاح و طلاق کے مسائل کی تحقیقات کے لئے بنائے گئے ہیں؟؟ اگر منی میں قصر و اتمام کی تحقیق کے لئے عالمی کانفرنس بلائی جاسکتی ہے، اگر بینکنگ کے موضوع پر تحقیقی سیمینار کرائے جاسکتے ہیں، اگر ٹیسٹ ٹیوب بے بی اور دیگر جدید طبی مسائل کے لئے فقہائے کرام سر جوڑ کر بیٹھ سکتے ہیں تو اس ظلم و سفاکیت اور درندگی پر مذہبی قیادت کی طرف سے قرآن وسنت کے حکم پر مشتمل عملی لائحہ عمل دینے میں کیا رکاوٹ ہے؟

کیا عملا کچھ نہ کرنا اور صرف دعا اور بائیکاٹ کی اپیل کرنا نظام قدرت کا مذاق نہیں؟ جب امریکا اور پوری دنیا کا کفر اسرائیل کی مدد کے لئے اپنے لاؤ لشکر سمیت میدان میں اترچکا ہے،کیا مذہبی قیادت مسلمان حکمرانوں کی راہ تکتی رہے گی؟
کیا مخیر مسلمانوں کے اربوں روپوں سے قائم ان اداروں کی شرعی ذمہ داری صرف اتنی ہی ہے؟
کیا اہل اسلام کی جان و مال اور عزت و آبرو کے دفاع لئے مسلح جہاد جیسے مقدس عظیم شرعی حکم کو عیاش اور نفسانی خواہشات کے غلام مسلمان حکمرانوں اور جرنیلوں کی مرضی پر چھوڑا جاسکتا ہے؟
سلطان جائر کی مرضی کے خلاف کلمہ حق بلند کرکے امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام احمد بن حنبل کی سنت کو کون پورا کرے گا؟
پورا یقین ہے کہ اگر مذہبی قیادت اپنے comfort zone سے باہر نکل کر دینی شجاعت اور حمیت کا مظاہرہ کرے تو اللہ کریم اہل فلسطین کی تقدیر بدل دے گا کہ عوام مسلمان تو عمل کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔

اور اگر ایسا نہیں ہوسکتا اور ہمیں اپنے اداروں کی عمارتیں اور اپنی راحت اور آسائشیں مسلمان بچوں کے خون اور مسلم خواتین کی عزتوں سے زیادہ عزیز ہیں تو پھر اخلاقی چوڑے القابات سے دست برداری کا اعلان کردیں- کل کو ان کے ہاتھ اور ہمارے گریبان ہوں گے۔ اللہ ہمیں معاف فرمائے۔  منقول