لوگو! غزہ اجاڑ دیا گیا
وہ دیکھو! لُٹ گئی اُمّتِ مسلمہ، گھونپ دیے گئے اس کے سینے میں آگ اور بارود سے دہکتے گولے، لوگو! غور سے دیکھو! سیکڑوں مسلمانوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑا دیے گئے، ایک ہی گھر کے دس افراد بارود سے بھون دیے گئے، ذرا فلسطین کی طرف دھیان تو دو کہ اب تک سیکڑوں بچّوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑا دیے گئے۔ درجنوں خواتین کے وجود کو بھنبھوڑ دیا گیا۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں اپنے والدین اور بھائیوں کی بارود سے بُھنی لاشیں اٹھائے، چیخ چیخ کر گہری نیند سوئے عالمی ضمیر کو جھنجوڑ رہی ہیں۔ اُن زخموں میں نہائے بچوں کے کرب کا ادراک تو کیجیے! کہ جن کی والدہ اور بھائی اسرائیلی بم باری سے شہید ہو چکے۔ اسرائیلی خوں خوار طیارے معصوم قلقاریاں بھرتے، بے بسی اور بے چارگی میں گِھرے بچوں کو نگل چکے۔اِس قدر ظلم اور خوں ریزی پر بھی عالمِ اسلام کے ٹھہرے اور ساکت وجامد ضمیر میں ارتعاش اور جنبش تک پیدا کیوں نہیں ہو رہی؟ تمام سیاست دان ان آہوں اور سسکیوں میں چُھپے کرب کو محسوس کیوں نہیں کر رہے؟ اسرائیل، غزہ کو کھنڈر بنا دینا چاہتا ہے۔ پاکستان کے مقتدر اور غیر مقتدر سیاست دانو! آپ کو سیاسی گہماگہمی سے فرصت ملے تو فلسطین کے درد کو محسوس کرنے کا ہی کچھ تکلّف کر لیجیے! آپ کو سیکڑوں تباہ شدہ مکانات میں انسانی جسم اُدھڑے بکھرے دِکھائی دیں گے۔ کتنے ہی بچے شدید زخموں کے باوجود یوں چیخ پکار کر رہے ہیں کہ دل کانپ اٹھتا ہے۔ دنیا میں کتنی ہی رُتیں بدل چکیں، کتنے ہی موسم انگڑائیاں لے چکے مگر اہلِ فلسطین کے درد کا درماں آج تک نہ ہو پایا۔او آئی سی ہو یا عرب وعجم کی حکومتیں، ان سب کے نرم و نازک لبوں پر ہمیشہ کچھ نہ کرنے کے جواز اور بہانے ہی رہے ہیں۔ اقبال اشعر کے بہ قول۔
دل کی بستی میں ہزاروں انقلاب آئے، مگر
درد کے موسم سہانے تھے، سہانے ہی رہے
ہم نے اپنی سی بہت کی وہ نہیں پگھلا کبھی
اُس کے ہونٹوں پر بہانے تھے بہانے ہی رہے
پاکستان کے نچلی سطح سے لے کر بالائی سطح تک کے تمام سیاسی قائدین کو اچھی طرح علم ہے کہ 1929 ء تک فلسطین میں صرف 84 ہزار یہودی تھے مگر 1947 ء تک فقط اٹھارہ سالوں میں یہودیوں کی تعداد 6 لاکھ تک پہنچا دی گئی اور وہ فلسطین کے 55 فی صد حصّے پر قابض ہو گئے۔14 مئی 1948 ء یہودیوں نے تل ابیب میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا، جسے امریکا نے نہ صرف فوراً تسلیم کر لیا بلکہ ڈالروں کا رُخ بھی اسرائیل کی طرف موڑ دیا۔ کرسی اور اقتدار کے بھوکے تمام سیاست دانوں کو خوب معلوم ہے کہ 1949 ء سے اپریل 2014 ء تک امریکا، اسرائیل کو 121 ارب ڈالر کی خطیر رقم بہ طورِ امداد دے چکا ہے۔ جنگِ عظیم دُوُم کے بعد اسرائیل سب سے زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے والا مُلک ہے۔سیاست دانوں کو یہ بھی اچھی طرح علم ہے کہ اسرائیل کو یہ تمام امداد فوجی معاونت کی شکل میں دی جاتی ہے، اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کو جتنا مرضی بے دریغ قتل کر ڈالو، کوئی پوچھنے والا نہیں۔
اِس کرّہ ءِ ارض پر یہودی سب سے زیادہ ظالم اور فتنہ گر ہیں۔ اسرائیلی فوجی غزہ کے محصور مسلمانوں کو جانور کہتے ہیں۔ وہ انھیں کُتّے کا نام دیتے ہیں۔یہودی کہتے ہیں کہ انسان صرف ہم ہیں، غزہ کے مسلمان پنجرے میں قید حیوانوں کی مانند ہیں۔ یہودیوں نے اپنے بچوں کے اذہان میں مسلمانوں کے خلاف اس قدر نفرت اور حقارت ٹھونس دی ہے کہ آپ کسی اسرائیلی بچے اس کا پسندیدہ کھیل پوچھیں تو اُس کا جواب ہو گا ”مسلمانوں کو قتل کرنا “ کاش! کہ انقلاب اور تبدیلی کے نعرہ ء جاں فزا کا رُخ فلسطین کی طرف ہوتا۔اے کاش! یہاں ڈولے دِکھا دِکھا کر، ڈنٹر پَیل پَیل اور مکھن پَیڑے کھا کھا کر پہلوانوں کی مانند کرسی پر جھپٹ پڑنے کے لیے دن رات ایک کر دینے والے یہ تمام سیاسی بزرجمہر، اسرائیل کے نتھنے میں کوئی موٹا رسّا ڈالنے کے لیے یک جان ہو جاتے کہ یہودیوں کی غارت گری اس قدر وحشی اور جنگلی درندے کا روپ دھار چکی ہے کہ فلسطین کی عورتوں کے ساتھ ہاتھا پائی اور انھیں اوندھے منہ گرا کر ان کی کمر پر بیٹھنے کی تصاویر اور ویڈیوز تک بنا کر مسلم اُمّہ کی غیرت اور حمیّت کا جنازہ نکالا جا رہا ہے۔
ابھی کچھ عرصہ قبل اقوامِ متّحدہ نے بھی تسلیم کیا تھا کہ فلسطین کے ایک لاکھ 73 ہزار بچے ایسے ہیں جن کو فوری طور پر مختلف نفسیاتی عوارض سے بچانے کی ضرورت ہے تا کہ وہ ذہنی طور پر متاثر نہ ہوں۔بے شمار فلسطینی بچے سفاکیت کے ساتھ خون میں نہلا دیے گئے لیکن اگر ایک بھی غیر مسلم پر ایسا ظلم کر دیا جاتا تو دنیا میں اب تک بھونچال آ چکا ہوتا مگر فلسطینی لوگوں کی اموات پر ساری دنیا چپ سادھے تماشا دیکھ رہی ہے۔اپنی اپنی سیاسی دکان داری چمکانے کے لیے نت نئے نعرے تخلیق کرنے اور پینترے بدلنے والے سیاست دانو! وہ دیکھو! غزہ جل رہا ہے، وہ دیکھو! نہتّے مسلمان کٹ رہے ہیں، وہ دیکھو! بچوں کی دل دوز چیخیں دل دہلا رہی ہیں، سنو تو سہی! دل فگار سسکیوں نےکلیجوں کو چیر کر رکھ دیا ہے، دھیان تو دو! کہ غزہ کے گلی کوچے خونِ مسلم سے سرخ ہو چکے، آنکھیں کھولو! بستیاں اجاڑ دی گئیں، خدارا غور کرو! کہ چھوٹے چھوٹے بچے مدد کے لیے پکار رہے ہیں، مسلم اُمّہ کی بیٹیاں تمھاری طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہی ہیں، دیکھو تو سہی! عالمی بدمعاش تمھاری عفت مآب بہنوں کی کمر پر چڑھ بیٹھے ہیں، وہ دیکھو! مساجد پکار رہی ہیں، وہ مظلوم ومقہور لوگ تمھاری راہیں تَک رہے ہیں، لیکن فلسطین کے مسلمانوں کی آہیں اور چیخیں تمھیں سنائی نہیں دے رہِیں۔اُن لُٹے پٹے لوگوں کی گریہ وزاری تمھارے دلوں میں نرماہٹ کا کوئی مادہ پیدا نہیں کر رہی، اس لیے کہ تمھاری آنکھوں پر اقتدار کی چربی چھائی ہے، فلسطین کے مسئلے پر تمھاری آنکھیں اشکوں سے عاری اور تمھارے دل، درد سے اتنے تہی کیوں ہو گئے ہیں؟ منظر بھوپالی کے یہ اشعار یاد رکھیں۔
بے عمل کو دنیا میں راحتیں نہیں ملتیں
دوستو! دعاؤں سے جنّتیں نہیں ملتیں
اپنے بَل پہ لڑتی ہے اپنی جنگ ہر پِیڑھی
نام سے بزرگوں کے عظمتیں نہیں ملتیں
اِس نئے زمانے کے آدمی ادھورے ہیں
صورتیں تو ملتی ہیں، سیرتیں نہیں ملتیں
( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )