مدرسہ بمقابلہ یونیورسٹی
حرم شریف کے در و دیوار پر تپتی دوپہر اپنا پورا زور دکھا رہی تھی۔ اس کے باوصف ہر سانس زندگی اور ہر لمحہ بندگی کا احساس لیے مکہ مکرمہ کی فضا روحانی احساسات کو مسلسل بڑھاوا دے رہی تھی۔حرم کے وسیع و عریض برآمدوں میں نصب ایئر کنڈیشنرز سے برآمد ہونے والی سرد ہوائیں ظاہری راحت کا بھی سامان فراہم کررہی تھیں۔ باہر کی تپش اور اندر کی خنکی،دنیا کی مشقتوں اور راحتوں پر مشتمل زندگی کی عکاسی کررہی تھی۔اسی پرکیف ماحول میں نظر ایک جانے پہچانے اور نہایت محترم چہرے پر پڑی۔ یہ دیرینہ فاضل دوست شیخ ندیم صاحب تھے۔ ان کے ہمراہ حافظ عبد العظیم صاحب اور الرحمہ انسٹیٹیوٹ کے کچھ دیگر اساتذہ بھی موجود تھے۔ ملاقات کیا تھی، گویا برسوں کی پیاس تھی جو اس مقدس مقام پر بجھ رہی تھی۔
نمازِ ظہر کی ادائیگی کے بعد شیخ ندیم صاحب فرمانے لگے: “آج ام القریٰ یونیورسٹی کے کچھ طلبہ کے ساتھ ایک نشست ہے، آپ بھی چلیے۔”
بھلا اس سعادت سے انکار کیسے ممکن تھا؟ فوراً ہامی بھر لی۔
اللہ اللہ! وہ مجلس کیا تھی، گویا علم و حکمت اور عرفان و آگہی کا ایک بہتا دریا تھا۔ مجلس میں شیخ الحدیث عبدالرحمن چیمہ صاحب اور محترم شیخ مفتی اجمل بھٹی صاحب حفظھم اللہ جیسی نابغہ روزگار شخصیات بھی جلوہ افروز تھیں۔ ان کے ساتھ دیگر فاضل شخصیات اور علم کے پیاسے طلبہ بھی موجود تھے۔ یہ فقیر بھی طلبہ میں بیٹھا لؤلؤ و لالہ سمیٹنے میں مگن تھا۔ علم وحکمت اور فکر ونظر پر مشتمل باتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک مجلس کا رنگ بدل گیا۔ محترم مفتی اجمل بھٹی صاحب نے طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
” کوشش کیجیے گا کہ یہاں سے پی ایچ ڈی کرکے ہی جائیں، ورنہ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں آپ کو جگہ نہیں ملے گی۔”
بس پھر کیا تھا، شیخ ندیم صاحب، جو مدارس اور دینی تعلیم کے لیے ہمیشہ پرجوش رہتے ہیں، اس بات کو لے اڑے اور کالجز اور یونیورسٹیوں کی تعلیمی و اخلاقی زبوں حالی اور مدارس میں سعودی فضلاء کی ضرورت پر ایک پرجوش اور مدلل گفتگو فرمائی۔
دوسری جانب مدارس و جامعات کی انتظامی مشکلات، کمزور نظم و نسق، اور اقرباء پروری کی وجہ سے ضائع ہوتے ٹیلنٹ کا نوحہ پڑھا جانے لگا۔ وہ مجلس جو کچھ دیر پہلے عرفان و آگہی کے پھول نچھاور کر رہی تھی، اب ایک گرما گرم بحث کا میدان بن گئی۔ فضا کچھ یوں بوجھل ہوئی کہ وہ نورانی چہرے، جو علم کی تمازت سے دمک رہے تھے، اب تھکے تھکے دکھائی دینے لگے۔ ان کی خاموش نگاہیں گویا یہ التجا کر رہی تھیں کہ “میاں! اب بس بھی کرو، بہت ہو گیا۔”
اسی دوران ایک اللہ کے بندے کونہ جانے کیا سوجھی کہ اس نے میرا نام لے دیا۔
“ارے، یہاں ڈاکٹر جواد حیدر بھی تو موجود ہیں، جو خود ایک کالج میں پڑھاتے بھی ہیں اور مدارس کے مزاج شناس بھی۔ کیوں نہ ان کی بھی رائے لے لی جائے؟”
سبھی کی نظریں بیک وقت میری طرف اٹھ گئیں۔ میں، جو اب تک خاموشی سے یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا، انکار کے باوجود اصرار کی زد میں آگیا۔ حافظ عبد العظیم صاحب نے شیخ الحدیث عبدالرحمن چیمہ صاحب حفظہ اللہ کے ساتھ والی نشست پر بٹھانے پر مجبور کر دیا۔اب حالت یہ تھی کہ انکار کی گنجائش تھی، نہ بولنے کا یارا ۔ بڑے بڑوں کے سامنے لب کشائی آسان نہ تھی، لیکن پاسِ ادب ملحوظ رکھتے ہوئے میں تھوڑا آگے آگیااور ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گیا۔ دل میں اللہ کا نام لیا،ادب سے سر جھکایا اور لرزتی آواز میں، مگر یقین کی پختگی کے ساتھ عرض کیا:
“ہم جس بحث میں الجھ گئے ہیں، درحقیقت اس کا تو وجود ہی نہیں بنتا۔ کیونکہ کام کے تین میدان ہیں اور طلبہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق کسی ایک کا انتخاب کرسکتے ہیں:
۱۔ علم و حکمت
۲۔ بحث و تحقیق
۳۔ دعوت و تبلیغ
ان تینوں شعبوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، بلکہ ان سے متعلق تمام افراد ایک دوسرے کا معاون ہونا چاہیے۔حقیقت البتہ یہ ہے کہ ان تینوں میدانوں کو سیراب کرنے والے ’رجالِ کار‘مدارس سے ہی اٹھتے ہیں۔ یہ فقیر، اپنی تمام تر مصروفیات (کالج کی تدریس، خطبات و دروس، قلم و قرطاس سے واجبی سا تعلق، ترجمہ کلاسز اور سکول کی ذمہ داریوں وغیرہ) کے باوجود، پوری دیانتداری سے یہ کسک محسوس کرتا ہے کہ مجھے مدرسہ میں ہونا چاہیے تھا۔ (اور شاید یہی وہ کسک تھی جس کی بدولت خدائے تعالیٰ نے آج مجھے ’الکتاب کالج‘ کے نام سے ایک مدرسہ قائم کرنے کی توفیق بخش دی ہے، وللہ الحمد)۔بہرصورت ان تینوں میدانوں کو ایک دوسرے کی ضد سمجھ لینا قرینِ انصاف نہیں۔ جواحباب تدریس کے وصف کے حامل ہیں، انہیں مدارس میں علم کی شمعیں روشن کرنی چاہییں۔ جن کا میلان بحث و تحقیق کی طرف ہے، انہیں ریسرچ سینٹرز اور اشاعتی اداروں کا رخ کرنا چاہیے۔اور جن کے سینوں میں دعوت کا درد موجزن ہے، وہ عوامی اجتماعات، شارٹ کورسز اور انفرادی رابطوں کو اپنا ذریعہ بناسکتے ہیں۔
اور ایک بات پورے وثوق سے عرض کرتاہوں کہ دعوت کے لیے اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کی ملازمتوں سے زیادہ زرخیز زمین کوئی نہیں۔ وہاں حق بات پہنچانے کے بے پناہ مواقع میسر ہیں۔ اس لیے یہ ملازمتیں محض پیٹ کا ایندھن نہیں، بلکہ ابلاغِ دین کا ایک خاموش جہاد بھی ہیں۔ اس لیے سکول و کالج یا یونیورسٹی کی ملازمت کو ہلکا خیال کرنا قرینِ انصاف نہیں۔
ایک ناسور سے البتہ بچنا ہوگا اور وہ ہے ’مادی سوچ‘۔ دینی طبقے کے لیے یہ سوچ زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ سوچ چاہے مدرسے کے حجرے میں پنپے یا یونیورسٹی کے ایئرکنڈیشنڈ ہال میں، فکر و عمل کی تباہی پر منتج ہوتی ہے۔
ایک بات بہرصورت یقینی ہے کہ مدارس قربانیاں مانگتے ہیں۔کچھ اللہ والے بہرحال ایسے ہونے چاہییں جو تعیشات کو ٹھکرا کر ’عزیمت‘ کی راہ کا انتخاب کریں۔ جوتنگی و ترشی برداشت کرکے، ان مدارس کی آبیاری کریں تاکہ افراد سازی کا یہ سلسلہ منقطع نہ ہو اور اگلی نسلوں تک قال اللہ و قال الرسول ﷺ کی امانت منتقل ہوتی رہے۔
اس کے بعد بحث الحمدللہ تھم گئی۔ آج ایسی باتیں پھر سننے کو ملیں تو یہ مجلس یاد آگئی۔
ڈاکٹر جواد حیدر
یہ بھی پڑھیں:ایک طالبِ علم کا سفر — دینی علم سے جدید ٹیکنالوجی تک




