مَیں تو اس آس پہ زندہ ہوں کہ مرنا کب ہے؟

جھاڑیاں اگی ہیں جھاڑیاں، گجرات اور احمد آباد کے مسلمانوں کے قاتل مودی کی سوچ اور فکر کے لق و دق میدان میں کانٹے ہی کانٹے اگتے چلے جا رہے ہیں۔ عناد اور تعصب مودی کی نصابی اور ہم نصابی، سرکاری اور غیر سرکاری سرگرمیوں کا مرکز بن گئے ہیں۔ بھارتی مسلمان لڑکیوں کی پتھرائی آنکھوں اور گھبرائی دھڑکنوں میں انجانی سی وحشتیں گاڑ دی گئی ہیں۔ وہ اپنے گلابی اور شہابی آنچلوں میں خوف و ہراس لادے پھرتی ہیں کہ نہ جانے کب ہندو انتہاپسند تنظیموں کا کوئی اچکا انہیں اٹھا کر لے جائے اور ان کی عصمت نوچنے کے بعد انھیں جبراً ہندو بنا ڈالے۔ اترپردیش کی مسلمان لڑکیاں اندیشوں اور وسوسوں میں گھری دہشت اور وحشت اپنے سرھانے دھر کر راتیں گزارتی ہیں۔ ہر لمحہ اور ہر آن عزت لٹنے کا دھڑکا لگا رہے تو خوشیاں تو کیا زندگی ہی ادھوری لگنے لگتی ہے۔
دل میں جب کوئی جا نہیں بچتی
درد آنکھوں میں پھیل جاتا ہے
ہندو انتہا پسند تنظیمیں بے دھڑک کہتی ہیں کہ مسلمان اور عیسائی پہلے ہندو تھے، انھیں دوبارہ ہندو بنانے کے مذموم و مسموم کام کو ” گھر واپسی مہم “ کا نام بھی دیا گیا جا چکا ہے۔ اس مہم کا سب سے بھیانک اور مہیب فعل مسلمان لڑکیوں کو اغوا کر کے انھیں زبردستی ہندو بنا کر ہندو لڑکوں کے ساتھ شادی کرنا ہے۔ ایسے غلیظ واقعات سب سے زیادہ یو پی میں ہو رہے ہیں۔ لڑکیوں کے والدین اپنی بیٹیوں کی بازیابی کے لیے جا بہ جا سوالی بنے پھرتے ہیں مگر ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں، ہر پولیس اہل کار نہ صرف انھیں دھتکار دیتا ہے بلکہ جب والدین پولیس کو رپورٹ درج کروانے جاتے ہیں تو ان ہی کے خلاف جھوٹے مقدمات بنا دیے جاتے ہیں، جن کی بیٹیاں اغوا کر لی گئی ہوں۔ ان ہی کو جیل کی سلاخوں میں بند کر دیا جائے تو پھر سوال لبوں پر ہی دم توڑ جاتے ہیں پھر کسی بے بسی اور بے چارگی کے دشت میں تپنے اور سلگنے کے سوا کوئی چارہ کار بھی تو نہیں رہتا۔
تو کسی در پہ گیا ہو تو خبر ہو تجھ کو
کس قدر کارِ اذیت ہے سوالی ہونا
گذشتہ چند سالوں کے دوران صرف یو پی سے 389 مسلمان لڑکیوں کو اغوا کیا گیا۔ ان جان کاہ واقعات کا سب سے زیادہ دل گیر اور گھمبیر پہلو یہ ہے کہ کسی ایک لڑکی کو بھی پولیس نے بازیاب نہیں کیا۔ تمام لڑکیاں ہندوؤں کی دسترس میں جبراً ہندو بنا لی گئی ہیں۔ بھارتی مسلمان لڑکیوں کی سسکتی عزتیں اور تڑپتی عصمتیں عالَمِ اسلام کے لیے ایک سوالیہ نشان بن چکی ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے کے دوران ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس نے گھر واپسی مہم کے دوران 22 مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنا لیا تھا، بی جے پی، شیوسینا اور آر ایس ایس کے غنڈے بے دھڑک مسلمان لڑکیوں کو اغوا کر کے بھارتی سیکولرازم کے ڈھول کا پول کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ بی جے پی کا سابق رکن اسمبلی
یوگی ادتیا ناتھ اس مہم کا سرپرست اور سرغنہ رہ چکا ہے۔ اترپردیش میں باغ پت شہر سے 35 کلو میٹر دور بدرکھا گاؤں میں ایک 22 سالہ نوجوان گلشن نے خود کشی کر لی، اس کی موت کا ملبہ اس کے گھر والوں پر ڈالنے کے خوف میں مبتلا کر کے ان کے گھر کے تمام افراد کو ہندو یووا واہنی اترپردیش کے سربراہ سوکیندر نے گاؤں کے چودھری جسبیر سنگھ کے گھر منتقل کر دیا تھا اور انھیں قتل کے مقدمے سے بچانے کے لیے ہندو بننے پر مجبور کر دیا تھا۔ سو کیندر نے جھوٹ بولا کہ یہ لوگ اسلام سے عاجز آ گئے تھے اور اپنی مرضی سے ہندو بنے ہیں۔ ایک ہندو چودھری کے گھر میں رہنے کے باوجود ان کی عورتیں ہندو بننے سے انکار کرتی ہیں۔ آج 25 کروڑ بھارتی مسلمان شدید اذیتوں میں مبتلا ہیں۔ بھارت نے مذہبی آزادی کے تمام حقوق کو اتنی بے دردی کے ساتھ لتاڑ اور روند کر رکھ دیا ہے کہ امریکی عالمی کمیشن کو بھی تشویش لاحق ہو چکی ہے۔ کچھ عرصہ قبل یہ کمیشن بھارت آ کر وہاں لیر و لیر انسانی حقوق کو دیکھنا چاہتا تھا مگر بھارت نے تین بار اس عالمی کمیشن کو ویزا دینے سے انکار کر دیا۔ عالمی کمیشن کے وفد کے رکن تھامس ریس نے امریکی ٹی وی کو بتایا تھا کہ ”بھارت میں سرکاری پشت پناہی سے ہندو انتہا پسند تنظیمیں، عیسائیوں، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملے کر رہی ہیں اور انھیں جبراً ہندو بنایا جا رہا ہے۔ مسلمان نوجوانوں کی زبردستی داڑھیاں مونڈ دی جاتی ہیں، انھیں بھارت ماتا کی جے کہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ایسا کچھ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ہوتا تو دنیا میں بھونچال آ چکا ہوتا۔ خوف و ہراس کے حصار میں جکڑے بھارتی مسلمانوں میں اپنی اغوا کی جانے والی بیٹیوں کا قصہ ء غم سنانے کی تاب گویائی ہے نہ جراَتِ اظہار، کتنی ہی نصیبوں جلی ماؤں کے کلیجے شق ہیں، کتنے ہی بدنصیب باپوں کے دل لخت لخت ہو چکے مگر متمدن احساسات کی کوئی خفیف سی مقدار بھی بھارت کے دل میں متمکن نہیں۔ ہزاروں بھارتی مسلمانوں کے دلوں میں اپنی اچک لی جانے والی بیٹیوں کے دکھ کے باعث زندہ رہنے کی خواہشیں دم توڑ چکیں۔ وہ منتظر ہیں کہ کب سانسوں کی ڈوری ٹوٹے اور انھیں تلخ اذیتوں اور مصیبتوں کے ہجوم سے نجات ملے۔
تُو سمجھتا ہے کہ جینے کی ہوس ہے مجھ میں
مَیں تو اس آس پہ زندہ ہوں کہ مرنا کب ہے

( انگارے۔ حیات عبداللہ )

یہ بھی پڑھیں: العلماء سوال و جواب کے مختلف مراحل