سوال
سوال ہے کہ کچھ وکنسیز (آسامیاں) ہیں ۔ اس کے لیے وہ نہ کوئی اشتہار لگاتے ہیں نہ کوئی خبر۔ بس کچھ مخصوص افراد کو بتاتے ہیں کہ آپ پانچ لاکھ روپے دے دو اور اگر آپ ٹیسٹ کلیئر کر جاتے ہیں تو دو شیٹ آپ کو مل جائے گی، بشرطیکہ عمر اور قد وغیرہ تمام چیزیں ان کے مطابق ہوں ۔اگر وہ پانچ لاکھ دے گا تو شیٹ اس کو ملے گی بصورتِ دیگر وہ پانچ لاکھ میں کسی اور کو بیچ دیں گے۔ تو کیا وہ نوکری کی شیٹ (فارم) حاصل کرنے کے لیے رشوت دے سکتا ہے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اگر اس بندے کے پاس اہلیت بھی ہے ،کوالیفکیشن اور ڈاکومنٹس بھی پورے ہیں اور یہ سمجھتا ہے کہ میں اس عہدے کو اچھی طرح سنبھال سکوں گا اور وہ کام بھی جائز ہے ناجائز نہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر اپنا حق لینے کے لیے اگر وہ پیسے دیتا ہے تو اس کی اجازت ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“إنَّ مَنْ أَهْدَى هَدِيَّةً لِوَلِيِّ أَمْرٍ لِيَفْعَلَ مَعَهُ مَا لا يَجُوزُ كَانَ حَرَامًا عَلَى الْمُهْدِي وَالْمُهْدَى إلَيْهِ، وَهَذِهِ مِنْ الرَّشْوَةِ الَّتِي قَالَ فِيهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم: لَعَنَ اللَّهُ الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي. فَأَمَّا إذَا أَهْدَى لَهُ هَدِيَّةً لِيَكُفَّ ظُلْمَهُ عَنْهُ أَوْ لِيُعْطِيَهُ حَقَّهُ الْوَاجِبَ: كَانَتْ هَذِهِ الْهَدِيَّةُ حَرَامًا عَلَى الآخِذِ وَجَازَ لِلدَّافِعِ أَنْ يَدْفَعَهَا إلَيْهِ”. [مجموع الفتاوى:31/278]
’بلا شبہ جس نے بھى کسی ذمہ دار کو كوئى ہديہ اس ليے ديا كہ وہ كوئى ايسا كام كرے جو اس كے ليے جائز نہ تھا تو ہدیہ دينے اور لينے والے دونوں پر وہ حرام ہے، اور يہ اسى رشوت ميں شمار ہو گا جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ اور اگر وہ اسے اس ليے ہديہ ديتا ہے كہ وہ اس پر ظلم نہ كرے، يا پھر وہ اس كا حق ادا كرے، تو يہ ہديہ لينے والے پر تو حرام ہوگا لیکن دينے والے كے ليے جائز ہوگا‘۔
لیکن ناحق عہدہ یا ملازمت حاصل کرنے یا اپنی نا اہلی کو چھپانے کے لیے، یا پھر اپنے جیسے افراد میں ترجیح حاصل کرنے کےلیے رشوت دینا جائز نہیں ہے۔
ایسی صورت میں اس کے لیے درست راستہ یہ ہے کہ وہ پانچ لاکھ کسی اور جائز ذریعہ پر لگائے اور وہاں اپنے لیے رزق کی تلاش کرے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ