مسئلہ معیشت اور تعلیم
خوانندگان محترم یاد رکھیے کہ” دارِ ارقم” سے لے کر ” اصحابِ صفہ ” تک…” بغداد ” کی درسگاہوں سے لے کر “جامع قرطبہ ” کی صفوں تک…” جامعہ ازھر سے لے کر” جامع مسجد دلی ” کی سیڑھیوں تک اسلامی تعلیم برائے تجارت نہیں بلکہ برائے تربیت ہوا کرتی تھی جس کی بدولت معاشرہ اخلاقی اقدار کا حامل، اسلامی تہذیب و تمدن کا گہوارہ اور فکری و نظری اعتبار سے تندرست و توانا ہوا کرتا تھا…تعلیم برائے تجارت جیسا فاسد خیال نہ کبھی کسی کے حاشیہء خیال میں آیا اور نہ ہی کوئی اس حوالے سے کبھی فکرمند ہوا کرتا تھا …یہ سیلابِ بَلا لارڈ میکالے نامی ایک یہودی جو تاریخی روایات کے مطابق برطانوی وزیر تعلیم بھی تھا اس کے دماغی خلل کا نتیجہ ہے جس کی تہہ میں جو مفسدات و مضمرات پوشیدہ تھے لسان العصر اکبر الہ آبادی نے بروقت ان سے خبردار کیا. اکبر کے دیوان میں دیکھا جائے تو مزاح کے پردے میں ایسے طنزیہ نشتر ہیں کہ شاید ہی کسی اور شاعر کے ترکش میں ایسے پر اثر تیر ہوں.
بطور نمونہ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
ع : ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
ع : ایک علم ہے بت بننے کا، ایک علم ہے حق پر مرنے کا
اس علم کی سب دیتے ہیں سند، اس علم میں ماہر کون کرے
ع : یہ بات تو کھری ہے ہرگز نہیں کھوٹی
عربی میں نظم ملت بی اے میں صرف روٹی
مذہب نے پکارا اے اکبر، اللہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
یاروں نے کہا کہ یہ قول غلط، تنخواہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
ع : ہم کیا کہیں احباب کیا کار نمایاں کر گئے
بی اے ہوئے نوکر ہوئے پنشن ملی پھر مر گئے
ع : عشق لیلائے سول سروس نے مجھ مجنوں کو
اتنا دوڑایا لنگوٹی کر دیا پتلون کو
مندرجہ بالا اشعار پہ مکرر غور کریں…یہ اشعار کسی مولانا یا مفتی صاحب کے نہیں بلکہ اس شخص کا دردِ دل ہے جو تعلیم برائے تجارت کے نقصانات کا اس وقت تجزیہ کرکے خبردار کر رہا تھا جبکہ ابھی ” علی گڑھ ” کی بنیادیں بھی مضبوط نہ ہوئیں تھیں اور جدید تعلیم کے برگ و بار نمایاں تک نہ ہوئے تھے.
اکبر کے بعد جس شخصیت نے اس نظام تعلیم پر سب سے کڑی تنقید کرتے ہوئے اس کی حقیقت کو طشت ازبام کیا وہ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ کی ذات گرامی ہے. علامہ نے اپنی فارسی اور اردو شاعری میں جابجا اس نظام تعلیم کے مضر اثرات کے حوالے سے قوم و ملت کو خبردار کرنا چاہا. بطور نمونہ چند اشعار ملاحظہ ہوں :
ع : عصر حاضر ملک الموت ہے تيرا ، جس نے
قبض کي روح تری دے کے تجھے فکرِ معاش
دل لرزتا ہے حريفانہ کشاکش سے ترا
زندگي موت ہے، کھو ديتي ہے جب ذوقِ خراش
ع : ديکھیے چلتی ہے مشرق کی تجارت کب تک
شيشہ ديں کے عوض جام و سبو ليتا ہے
ہے مداوائے جنون نشتر تعليم جديد
ميرا سرجن رگ ملت سے لہو ليتا ہے
ع : یہ کوئی دن کی بات ہے اے مردِ ہوش مند!
غیرت نہ تجھ میں ہو گی، نہ زن اوٹ چاہے گی
آتا ہے اب وہ دَور کہ اولاد کے عوَض
کونسل کی ممبری کے لیے ووٹ چاہے گی
ع : تعلیمِ مغربی ہے بہت جرات آفریں
پہلا سبق ہے بیٹھ کر کالج میں مار ڈینگ
ع : اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مُروّت کے خلاف
زیبِ داستاں کے لیے بات اور بڑھائی جا سکتی ہے مگر یہ موقع تفصیل کا نہیں…احباب اس موضوع پر اقبال کے خیالات تفصیل کے ساتھ یکجا پڑھنا چاہتے ہیں تو ” ضربِ کلیم ” میں
” مکتبِ ہندی ” کا مطالعہ فرمائیں. مختصراً یہی عرض ہے کہ ماہرین اقبالیات نے حضرت اقبال کی نظم و نثر کا تطبیقی جائزہ لینے اور تجزیاتی مطالعہ کرنےکے بعد اقبال کے تصور تعلیم کو چار عناصر میں تقسیم کیا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں :
1: حقیقت کی تلاش
2: خودی کی پرورش
3: مقصد زندگی کا تعین
4 : اسلامی اجتماعیت سے ربط و وفاداری.
ان چاروں عناصر پہ غور کیا جائے تو اقبالیات کے نہال خانے میں کسی طور بھی تعلیم برائے تجارت کا تصور نہیں ابھرتا بلکہ تعلیم برائے تجارت پر جا بجا تنقید نما تبصرہ کیا گیا ہے.
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اہلِ دین نے 1857ء کے خون چکاں سانحے کے بعد جس طرح دینیات کی حفاظت کے لیے لازوال قربانیاں دیں اور جیسے اس دین کو محفوظ رکھا اس کے لیے مغربی اور مشرقی مؤرخین کی کتب کا خلاصہ مرزا مظہر جانجاناں کے اس شعر سے بیان کیا جا سکتا ہے جو تاریخی روایات کے مطابق ان کی شہادت کے وقت ان کی زبان پہ جاری تھا :
بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
ترجمہ : خون اور خاک میں تڑپنے والی اچھی رسم کی اُنہوں نے بنیاد ڈال دی، خدا اِن پاک طینت، نیک فطرت عاشقوں پر اپنی رحمتیں نازل کرے.
اس وقت یا تو یہ حضرات برطانوی سامراج کی بطور سازش کی گئی دینی و دنیاوی تعلیم میں تفریق کے بعد ہتھیار ڈال کر سرسید احمد خان صاحب والا راستہ اپناتے یا پھر عزیمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے فقر و فاقہ، زہد و قناعت، صبر و رضا پر مبنی مشکل زندگی بسر کرنے کے لیے کمربستہ ہوتے…انہوں نے راہ عزیمت اختیار کی اور بے شمار تکالیف اور لاتعداد مصائب سے گزرتے ہوئے اپنی دنیا بنائی یا نہیں بنائی مگر اللہ تعالیٰ کی خاص توفیق سے اپنا اور لوگوں کا دین بچا گئے…ہم یہ نہیں کہتے کہ مالی معاملات کے حل کی کوششیں نہ کی جائیں…ضرور کی جائیں…مگر یہ یاد رکھا جائے کہ ” يبتلى المرء على حسب دينه “…یہ رستہ گل پوشی کا ہے مگر یاد رہے کہ آغاز میں بطور آزمائش کانٹے چبھ جایا کرتے ہیں…اس وادیء پُرخار میں کانٹوں کی پیاس بجھانے کے لئے آبلہ پا ہونا ہی پڑتا ہے …حضور والا آپ کو کتابیں ازبر ہیں مگر معانی و مفاہیم سے آشنائی شاید کچھ خاص نہیں…ذرا غور فرمائیے کہ یہ قرآن پاک میں ہی ہے کہ :
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ.
ترجمہ: کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھاہے کہ انہیں صرف اتنی بات پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہتے ہیں ہم ’’ایمان لائے‘‘ اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا؟(العنكبوت :2)
وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ(العنكبوت : 3)
ترجمہ:اور بیشک ہم نے ان سے پہلے لوگوں کوآزمایاتو ضرور ضرور الله انہیں دیکھے گا جو سچے ہیں اور ضرور ضرور جھوٹوں کو (بھی) دیکھے.
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْامِنْ قَبْلِکُمْ مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَآء وَ الضَّرَّآء وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ} (۲؍البقرۃ : ۲۱۴) ’’
ترجمہ : کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، انھیں تنگدستی اور تکلیف پہنچی اور وہ سخت ہلائے گئے، یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے : اللہ کی مدد کب ہو گی؟ سن لو! بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔
علامہ عبد الرحمن بن ناصر سعدیؒ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے :’’اللہ تبارک و تعالیٰ گزشتہ آیت میں خبر دے رہے ہیں کہ لازمی طور پر وہ اپنے بندوں کو خوشحالی، تنگی اور مشقت میں مبتلا کر کے ان کا امتحان لے جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کا امتحان لیا، لہٰذا یہ ایک نہ بدلنے والی سنت جاریہ ہے کہ جو شخص بھی اللہ کے دین و شریعت پر کاربند ہو گا یقیناً وہ اس کا امتحان لے گا۔ ‘‘
(تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان، ص : ۹۷).
آہ فآہ ثم آہ :
یہ قیام کیسا ہے راہ میں، تیرے ذوقِ عشق کو کیا ہوا
ابھی چار کانٹے چبھے نہیں، تیرے سب ارادے بدل گئے
آج اہل حدیث مدارس کے دو محسنین جن کا ذکرِ خیر کئے بغیر گزشتہ چالیس برس کی تاریخ مرتب ہی نہیں کی جا سکتی مولانا محمد یونس بٹ صاحب رحمہ اللہ اور پروفیسر چوہدری محمد یاسین ظفر صاحب حفظہ اللہ ہیں…حضرت چوہدری صاحب نے ایک مجلس میں بتایا کہ مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد جامعہ سلفیہ تقرری ہوئی…کچھ وجوہات کی بنا پر کئی ماہ تک تنخواہ نہ ملی…اسی دوران سعودی عرب میں مترجم کی ملازمتوں کا پتا چلا…اسلام آباد میں انٹرویو تھا…دونوں بزرگ بھی جا پہنچے…انٹرویو دینے کے لیے بیٹھے تھے کہ یکایک مولانا بٹ صاحب رحمہ اللہ کہنے لگے : چوہدری صاحب ہم پاکستان کیا کرنے آئے تھے؟ چوہدری صاحب کہنے لگے : دین کی خدمت کرنے. یہ سن کر مولانا محمد یونس بٹ صاحب رحمہ اللہ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انٹرویو دیے بغیر ہی واپس جامعہ لے آئے اور دونوں بزرگ کسی تنخواہ کے بغیر ہی عرصہ دراز تک جامعہ سلفیہ میں کام کرتے رہے…اللہ کا شکر ہے وہاں کوئی موٹیوشنل سپیکر نہیں تھا وگرنہ عین ممکن ہے کہ نہ ” وفاق المدارس السلفیہ ” جیسا شاندار کام ہوتا اور نہ ہی ” جامعہ سلفیہ ” جیسی عالیشان درسگاہ.
(جاری ہے)
نثر نگار : حافظ عبد العزیز آزاد