اخلاقی گراوٹ اور معاشرتی انحطاط کو جانچنے کے لیے آپ 2023 ء میں ہونے والے جرائم کے اعداد و شمار پر ہی طائرانہ نظر ڈال لیں تو آپ کو یقین ہو چلے گا کہ ہم کس منحوس رَوِش اور مہیب ڈگر پر گامزن ہیں، جرائم کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں، آپ کو یقیناً یہ جان کر بھی افسوس ہو گا کہ صرف پنجاب میں جرائم کی شرح میں 30 فی صد اضافہ ہُوا ہے۔2022 ء میں یہاں سات لاکھ 18 ہزار مقدمات درج ہوئے تھے، جب کہ 2023 ء میں دس لاکھ 33 ہزار سے زائد ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔2023 ء کے دوران زیادتی کے 35 سو، ڈکیتی کے 85 ہزار جب کہ لُوٹ کھسوٹ کے 28 ہزار مقدمات درج کیے گئے۔موٹر سائیکل چوری اور چھین لینے کی ایک لاکھ 16 ہزار وارداتیں ہوئیں، مجموعی طور پر چوری کے 2 لاکھ واقعات رپورٹ ہوئے، پنجاب میں لوکل اینڈ سپیشل قانون کے تحت ایک لاکھ 62 ہزار اور متفرق جرائم کے ایک لاکھ 81 ہزار مقدمات درج ہوئے، جرائم کی نوعیت دیکھ کر اس چیز کا ادراک ہونا چنداں دشوار نہیں کہ آدمی ہی آدمیت سے تہی ہوتا جا رہا ہے، انسان ہی انسانیت سے عاری ہو چلا ہے، جگر مراد آبادی نے کہا ہے
آدمی کے پاس سب کچھ ہے، مگر
ایک تنہا آدمیت ہی نہیں
ریگ زارِ حیات میں آپ جس سمت بھی دیکھیں گے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ زندگی مسائل کی آماج گاہ بنتی دِکھائی دے گی، ہر سال کے اختتام پر کسی بھی مُلک میں جرائم کے اعداد و شمار اور نوعیت کو پھرول کر دیکھیں گے تو پہلے سے زیادہ سفاکیت اور درندگی دِکھائی دے گی، ہر سال ظلم و جبر نئے بھیانک روپ اور خون آشام ڈھنگ کے ساتھ لوگوں کی آہوں، سسکیوں اور آنسوؤں میں اضافہ ہی کرتا جاتا ہے، مُلک کے بادبانوں اور کھیون ہاروں کے دلوں میں اقتدار کی طمع اور حرص اتنی بڑھتی جاتی ہے کہ یہ لوگ خود مجرموں کے پشت پناہ بن جاتے ہیں، اب ذرا دل تھام کر یہ بھی پڑھ لیں کہ ایک سال کے دوران بچوں سے جنسی زیادتی کے 2960 واقعات کی ایف آئی آر درج کی گئی ہے، اسی ایک سال میں 1510 بچیوں کے ساتھ اور کے 1450 بچوں کے ساتھ زیادتی کے مقدمات درج ہوئے ہیں، یہ واقعات تو وہ ہیں جن کے مقدمات درج کیے گئے ہیں، ان سے زیادہ دل دوز واقعات ایسے ہوتے ہیں جو بدنامی کے ڈر سے درج ہی نہیں کروائے جاتے۔حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے مقام اور مرتبے سے گِر چکا ہے، انسان کے پاس سب کچھ ہے، سوائے انسانیت کے۔مغیث الدین فریدی نے بہت عمدہ شعر کہا ہے
اِس دَور میں انسان کا چہرہ نہیں ملتا
کب سے مَیں نقابوں کی تہیں کھول رہا ہوں
عدل و انصاف کی عدم دستیابی سے لے کر بے روزگاری تک، جرائم میں اضافے کی درجنوں وجوہ پیش کی جاتی ہیں مگر آئیے! جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کی پندرھویں سب سے بڑی معیشت میکسیکو کو بھی دیکھ لیں کہ اس کے شہر ” کولیمے “ کو سب سے زیادہ جرائم کے باعث بدترین شہر کہا جاتا ہے، اس لیے کہ 2022 ء میں ہر ایک لاکھ افراد کے حصے میں آنے والی 18194 قتل کی وارداتیں تھیں۔عوامی سلامتی و تعزیراتی کونسل کی رپورٹ میں دنیا کے ایسے 50 شہروں کی فہرست شائع کی گئی ہے جہاں سب سے زیادہ جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔3 لاکھ سے زائد آبادی اور بلند شرحِ جُرم والے 50 شہروں کی فہرست میں میکسیکو ہی کے 17 شہر شامل ہیں۔اس کے علاوہ جن 10 شہروں میں جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے ان میں سے بھی 9 کا تعلق میکسیکو سے ہے۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بے روزگاری، غربت، جہالت اور وسائل کی کمی جرائم میں اضافے کی چھوٹی سی وجوہ ضرور ہو سکتی ہیں، اصل سبب اور بنیادی وجہ یہ نہیں ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کا کوئی معاشرہ کُلّی طور پر جرائم سے پاک نہیں ہو سکتا البتہ جرائم کی شرح کو 90 فی صد تک کم ضرور کیا جا سکتا ہے اور یہ فقط اسی صورت میں ممکن ہے کہ اسلامی تعزیرات کو عملی جامہ پہنا دیا جائے، کسی بھی مجرم پر عین اسی سزا کا نفاذ ممکن بنا دیا جائے جو اسلام نے اس کے لیے مقرر کی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہولناک جرائم کی شرح کو 90 فی صد تک کم نہ کیا جا سکے۔آپ ترقی یافتہ ممالک کو بھی دیکھیں گے تو وہاں غربت، جہالت اور مالی وسائل کی کمی جیسے مسائل کہیں دِکھائی نہیں دیں گے لیکن اس کے باوجود وہاں پر ایک دن میں اتنے جرائم ہوتے ہیں جتنے سعودی عرب میں سال بھر میں بھی نہیں ہوتے۔سو، جرائم میں کمی کے لیے اسلامی سزاؤں کا اطلاق انتہائی ناگزیر ہے،اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو آپ کسی طور بھی جرائم کی شرح میں کمی تو کجا انھیں بڑھنے سے روک ہی نہیں سکتے، اگر واقعی ایسا نہ کیا گیا تو پھر لوگ بھیانک سے بھیانک جرائم کرنے میں ذرا تامّل نہیں کریں گے، پھر ہر سال کے آخر میں جرائم کے اعداد و شمار دیکھ کر یہی کہیں گے کہ لوگ زندگی کے مجرم ہیں، لوگ غم اور خوشی کے بھی مجرم ہیں۔ساغر صدیقی نے یہی تو کہا ہے۔

غم کے مجرم، خوشی کے مجرم ہیں

لوگ اب زندگی کے مجرم ہیں

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )